116۔ ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا

کلام
محمود صفحہ177

116۔ ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار
کا

ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار
کا
اس سے بڑھ کر کیا ذریعہ چاہیے اظہار
کا
فلسفی ہے فلسفہ سے رازِقدرت ڈھونڈتا
عاشقِ صادق ہے جویاں یار کےدیدار کا
عقل پر کیا طالب ِ دنیا کی ہیں پردے
پڑے
ہےعمارت پرفدامنکرمگرمعمار کا
تیری رہ میں موت سے بڑھ کر نہیں عزت
کوئی
دار پر سے ہے گزرتا راہ تیرے دار کا
غیر کیوں آگاہ ہورازِمحبت سے مرے
دشمنوں کو کیا پتہ ہو میرے تیرے پیارکا
ڈھونڈتا پھرتا ہے کوناکونامیں گھر گھر
میں کیوں
اس طرف آئیں میں پتہ دوں تجھ کو تیرے
یار کا
اے خدا کردے منور سینہ و دل کو مرے
سرسے پا تک میں بنوں مخزن ترے انوار
کا
سیرکروادےمجھے تُوعالمِ لاہوت کی
کھول دے تو باب مجھ پر روح کے اسرار
کا
قید وبندِحرص میں گردن پھنسائی آپ نے
اس حماقت پر ہے دعویٰ فاعلِ مختار کا
رشتہ ء الفت میں باندھے جارہے ہیں آج
لوگ
 توڑ بھی کیا
فائدہ ہے اس ترے زُنّار کا
فلسہ بھی،رازِقدرت بھی ،رموزِ عشق بھی
کیا نرالاڈھنگ  ہے پیارے تری گفتار کا
بن رہی ہے آسماں پر ایک پوشاکِ جدید
تاناباناٹوٹنے والا ہےاب کفار کا
ان کے ہاتھوں سے تو جامِ زہر بھی تریاق
ہے
وہ پلائیں گر تو پھر زَہرہ کسے انکار
کا
چھٹ گیا ہاتھوں سے میرے دامنِ صبر وشکیب
چل گیا دل پر مرے جادو تری رفتار کا
اخبار الفضل جلد 32 ۔3نومبر 1944ء

اپنا تبصرہ بھیجیں