115۔ کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں

کلام
محمود صفحہ176

115۔ کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں

کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں
ہواوحرص کی دنیا کو مار دیتے ہیں
وہ عاشقوں کے لیے بیقرار ہیں خود بھی
وہ بے قراردلوں کو قرار دیتے ہیں
کسی کا قرض نہیں رکھتے اپنے سر پر وہ
جو ایک دے انہیں ،اس کو ہزار دیتے ہیں
عطاء وبخشش و انعام کی کوئی حد ہے
جسے بھی دیتے ہیں وہ بیشمار دیتے ہیں
جوان کے واسطےادنیٰ سا کام کرتا ہے
وہ دین ودنیا کو اس کی سدھار دیتے ہیں
جودن میں آہ بھرے ان کی یاد میں اک
بار
وہ رات پہلو میں اس کے گذار دیتے ہیں
بگاڑ لے کوئی ان کے لیے جودنیا سے
وہ سات پشت کو اس کی سنوار دیتے ہیں
وہ جیتنے پہ ہوں مائل توعاشقِ صادق
خوشی سے جان کی بازی بھی ہار دیتے ہیں
وہی فلک پہ چمکتے ہیں بن کے شمس وقمر
جو در پہ یار کے عمریں گذار دیتے ہیں
وہ ایک آہ سے بےتاب ہوکے آتے ہیں
ہم اک نگاہ پہ سوجان ہار دیتے ہیں
جو تیرے عشق میں دل کو لگے ہیں زخم
اے جاں
ادھر تو دیکھ وہ کیسی بہار دیتے ہیں
اخبار الفضل جلد 32 ۔ 2اگست 1944ء

اپنا تبصرہ بھیجیں