399۔ تری آنکھوں میں عیّاری بہت ہے

399۔ تری آنکھوں میں عیّاری بہت ہے

 

تری آنکھوں میں عیّاری بہت ہے

صداقت کم اداکاری بہت ہے

 

فقیہِ شہر، درباری بہت ہے

اور اس کی سوچ سرکاری بہت ہے

 

مری تکفیر کے فتوے سے تجھ پر

حکومت کا نشہ طاری بہت ہے

 

یہ الٹی آنکھ کے ہےہیں کارنامے

کہ سیدھی نور سے عاری بہت ہے

 

میں کیسے مان لوں اسلام تیرا

کہ یہ اسلام سرکاری بہت ہے

 

یہ چِٹّا جھوٹ ہے اعلان تیرا

لب و لہجہ بھی بازاری بہت ہے

 

اِدھر ہے تیرا نوّے دن کا وعدہ

اُدھر کرسی تجھے پیاری بہت ہے

 

کلاشنکوف کی اور ‘ہیرون’ کی

سنا ہے گرم بازاری بہت ہے

 

ہوں تیرے رتجگے تجھ کو مبارک

مجھے ‘سحری’ کی بیداری بہت ہے

 

تو عادی قتلِ ناحق کا ہے لیکن

خود اپنی جاں تجھے پیاری بہت ہے

 

یہ تخت و تاج ہوں تجھ کو مبارک

مجھے سولی کی سرداری بہت ہے

 

مبارک تجھ کو تیری پارسائی

مجھے اپنی خطا کاری بہت ہے

 

میں تیری ہاں میں ہاں کیسے ملا دوں

دلِ نادان انکاری بہت ہے

 

میں ہنستا مسکراتا جا رہا ہوں

اگرچہ زخم بھی کاری بہت ہے

 

خریدو عشق کو، لیکن سنبھل کر

کہ اس میں چور بازاری بہت ہے

 

سنا ہے جی اٹھا اسلم قریشی

خبر لیکن یہ اخباری بہت ہے

 

بتا تو دوں ترے انجام کی بات

مگر یہ بات انذاری بہت ہے

 

نہ جانے پھول کا انجام کیا ہو

اسے ہنسنے کی بیماری بہت ہے

 

اسیرِ زلفِ جاناں ہو چکے ہیں

ہمیں اتنی گرفتاری بہت ہے

 

عجب کیا جاتے جاتے رک بھی جاؤں

اگرچہ اب کے تیّاری بہت ہے

 

گزرنے میں نہیں آتا ہے مضطرؔ

یہ لمحہ ہجر کا بھاری بہت ہے

 

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

399۔ تری آنکھوں میں عیّاری بہت ہے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں