48۔ تُمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے لگے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ39۔40

48۔ تُمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے
لگے

تُمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے
لگے
پھر اُس کے بعد اندھیرے دیئے جلانے
لگے
چمک رہا تھا وہ چاند اور اس کی محفل
میں
سب آنکھیں آئینے چہرے شراب خانے لگے
خلاء میں تھا کہ کوئی خواب تھا کہ خواہش
تھی
کہ اس زمین کے سب شہر شامیانے لگے
نہ جانے کون سے سیّارے کا مکیں تھا
رات
کہ یہ زمین و زماں سب مجھے پرانے لگے
فضائے شام، سمندر، ستارہ جیسے لوگ
وہ بادبان کھلے ، کشتیاں چلانے لگے
بس ایک خواب کی مانند یہ غزل میری
بدن سنائے اسے روح گنگنانے لگے
ہزاروں سال کے انساں کا تجربہ ہے جو
شعر
تو پل میں کیسے کھلے وہ جسے زمانے لگے
سیاہ رات کی حد میں اگر نکل آئے
دیئے کے سامنے خورشید جھلملانے لگے
ہر اک زمانہ زمانہ ہے میرؔ صاحب کا
کہا جو ان نے تو ہم بھی غزل سنانے لگے
1978ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں