60۔ وصل کے دن ہیں، رُت ہے الفت کی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ97۔98

60۔ وصل کے دن ہیں، رُت ہے الفت کی

وصل کے دن ہیں، رُت ہے الفت کی
عشق کی، پیار کی، محبت کی
تیرے کہلائے، تجھ سے نسبت کی
ہم نے کیا کیا نہیں جسارت کی
تجھ کو چاہا، تری عبادت کی
تیری جانب کی جب بھی ہجرت کی
یہ امانت جو ہے امامت کی
حسنِ سیرت کی، حسنِ صورت کی
یہ علامت ہے تیری قدرت کی
ہم مریضوں کے غسلِ صحّت کی
مصحفِ رُخ کی بھی تلاوت کی
سیر کی ایک ایک آیت کی
آنسوؤں نے اگر رفاقت کی
دُھل ہی جائے گی گرد غفلت کی
مَیں کہ ہوں اک پرانا ناشکرا
مجھ پہ برسیں گھٹائیں شفقت کی
چاند نے رات چاندنی بخشی
اپنی تصویر بھی عنایت کی
ق
تم بھی آئے ہو اپنے مطلب سے
بات ہم نے بھی کی ہے مطلب کی
سچ کو سچ جانا اور جھوٹ کو جھوٹ
ہم نے کی بھی تو یہ سیاست کی
تاج ہم نے پہن کے کانٹوں کا
بر سرِ دار استراحت کی
تم نے اس کو بھی کاٹنا چاہا
یہ جو انگشت ہے شہادت کی
گُپ اندھیرا ہے اور غضب کا ہے
روشنی بھی ہے اور قیامت کی
آسماں سے برس رہی ہے آگ
دھوپ بھی پڑ رہی ہے شدّت کی
پھر کہیں دل میں ہُوک سی اُٹھی
پھر کسی آرزو نے رحلت کی
بارہا دل کے فیصلے بدلے
یعنی توہین کی عدالت کی
دل ہی دل میں ہوں اِس سے شرمندہ
یہ جو افتاد ہے طبیعت کی
رات گزری پلک جھپکتے میں
مسکرائی سحر صداقت کی
کھل رہے ہیں قفس کے دروازے
ڈَھے رہی ہے فصیل نفرت کی
فوج در فوج آ رہے ہیں لوگ
اوڑھ کر چادریں محبت کی
ہر طرف کھِل رہے ہیں پھول ہی پھول
"چل رہی ہے نسیم رحمت کی
جو دعا کیجیے قبول ہے آج”
یکم فروری، ۱۹۹۸ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں