157۔ عرش سے فرش تک، پھول سے خار تک

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ239

157۔ عرش
سے فرش تک، پھول سے خار تک

عرش سے فرش تک، پھول سے خار تک
تُو ہی آباد ہے دشت کے پار تک
ہم خطاکار تیرے وفادار ہیں
تُو خفا ہو کے ہم کو نہ اے یار! تک
تیری ایک اک ادا ہم کو مرغوب ہے
ہم کو محبوب ہے تیرا انکار تک
تُو نہاں خانۂ دل میں بیٹھا رہا
لوگ ڈھونڈا کیے عرش کے پار تک
تیری فرقت میں اب حال بے حال ہے
میرے دلدار! آ، میرے غمخوار! تک
تُو جواب اس کا کیا دے گا اے بے خبر!
بات پہنچی اگر میرے دلدار تک
شہرِ جاناں کے حالات کو بھی سمجھ
کسی چہرے کو پڑھ، کوئی اخبار تک
اب نہ شکوہ شکایت نہ شورِ طلب
سلسلے تھے یہ سب مضطرِؔ زار تک
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں