156۔ التفاتِ نگاہِ یار تو ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ237۔238

156۔ التفاتِ
نگاہِ یار تو ہے

التفاتِ نگاہِ یار تو ہے
تیر اِک دل کے آر پار تو ہے
سینہ غم سے مرا فگار تو ہے
اپنے ہونے کا اعتبار تو ہے
پھر کوئی آ رہا ہے جانبِ دل
دُور اُفُق سے پرے غبار تو ہے
یہ الگ بات درگزر نہ کریں
آپ کو اس کا اختیار تو ہے
یہ بھی کیا کم ہے بلبلِ ناداں!
موسمِ گل تو ہے، بہار تو ہے
دوستی کے اگر نہیں قابل
دشمنوں میں مرا شمار تو ہے
غمِ جاناں ہو یا غمِ دنیا
آدمی غم سے ہمکنار تو ہے
میرا ہو جائے کچھ بعید نہیں
مجھ پہ مائل وہ گل عذار تو ہے
کیا عجب ہے معاف بھی کر دے
دل ہی دل میں وہ شرمسار تو ہے
غم پہ قابو اگر نہیں مضطرؔ!
اس میں لذّت تو ہے، خمار تو ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں