تمہید

بخار
دل صفحہ10۔12

تمہید

استاذی المحترم حضرت ڈاکٹرمیرمحمد اسماعیل
۔۔۔۔۔۔۔نے 1903ء سے شعر کہنے شروع کیے اور آخر وقت تک کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔ 44 برس
کے اس طویل عرصہ میں آپ نے بہت تھوڑی نظمیں کہیں مگر جو کچھ کہا بالعموم دین کی تائید،
احمدیت کی حمایت، اسلامی قدروں کی اشاعت، اصحاب جماعت کی نصیحت، بچوں کی تربیت، نوجوانوں
کی اصلاح، اخلاق و موعظت کی تبلیغ اور پند و نصائح کی ترویج کے لئے کہا۔ ان کی نظمیں
خدا اور رسولؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں۔
ان کا ناصحانہ اور صوفیانہ کلام بیحد دِلنشیں اور مؤثر ہوتا تھا اور جب وہ سلسلہ کے
اخبارات میں چھپتا تھا تو احمدی احباب نہایت ذوق و شوق سے انہیں پڑھتے تھے۔ حضرت میر
صاحب کے پُرکیف کلام کی مقبولیت اور شہرت کو دیکھ کر میں نے ”بُخارِدِل” کے نام سے
آپ کے کلام کا مجموعہ 1928ء میں پانی پت سے شائع کیا جس میں بعض ابتدائی نظموں کو چھوڑ
کر اس وقت تک کا کلام جمع تھا، بعد میں حضرت میر صاحب نے اور بہت سی نظمیں کہیں جو
احمدی اخباروں میں مسلسل چھپتی رہیں۔ اس عرصہ میں حضرت میر صاحب برابر مجھے لکھتے رہے
کہ پانی پت چھوڑ کر قادیان آ جاؤ بالآخر مَیں ان کے اِرشادات کی تعمیل میں 1944ء میں
مستقِل طور پر قادیان آ گیا اور حضرت میر صاحب نے انتہائی شفقت کے ساتھ مجھے اپنے ساتھ
اپنے مکان میں اپنے انتقال کے وقت تک رکھا اور اگر ہمیں قادیان سے نکلنا نہ پڑتا تو
اب تک وہیں رہتا۔
قادیان آنے کے بعد میں نے پہلا کام
یہ کیاکہ اس عرصہ میں جس قدر نئی نظمیں حضرت میر صاحب نے لکھی تھیں سب فراہم کیں اور
ان کو بُخارِ دِل حصہ دوم کے نام سے 1945ء میں شائع کر دیا، مگر اس مجموعہ کی اشاعت
کے بعد بھی حضرت میر صاحب کچھ نہ کچھ کہتے رہے اور بُخارِدِل کے سادہ اوراق پر لکھتے
رہے مگر وہ کلام کہیں شائع نہیں ہوا۔ اپنے انتقال 18جولائی 1947ء سے پہلے حضرت میر
صاحب نے وصیت کر دی تھی کہ میرے بعد یہ سارا کلام اسماعیل کے سپرد کر دیا جائے، چنانچہ
حضرت ممانی جان اللہ آپ سے راضی ہو نے اپنے محترم شوہر کی وفات، حسرت آیات کے تیسرے
ہی دن یہ مسوّدہ میرے حوالے کر دیا جس کے فوراً بعد ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا۔ پاکستان
آ کر ممانی جان برابر مجھے اس مسوّدہ کی اشاعت کے متعلق لکھتی رہیں مگر مجھے بدقسمتی
سے اس ضروری کام کے بجا لانے کی توفیق نہ ملی۔ حضرت ممانی جان کی وفات کے بعد ان کی
دختر نیک اختر حضرت اُمّ متین مریم صدیقہ ایم اے حرم محترم حضرت خلیفہ ثانی اللہ آپ
سے راضی ہو نے اپنے باپ کے اس مقدس ورثہ کی اشاعت کی طرف مجھے توجہ دلائی۔ میرا وقت
بھی اب آخر ہے اور میں بہت ہی سُرعت کے ساتھ موت کی وادی کی طرف جا رہا ہوں۔ اس لئے
سوچا کہ مرتے مرتے اگر یہ کام ہو جائے تو میری عین سعادت ہے۔ اس لئے نہایت ضُعف و ناتوانی
اور اس بے حد کمزوری و ناطاقتی کے باوجود بیماریوں اور اَفکار کے ہُجوم میں جس طرح
بھی بن سکا میں نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت میر صاحب کے پُرکیف، اثر انگیز اور
پُرمعارف کلام کا یہ مجموعہ مَیں آج حضرت مریم صدیقہ کی خدمت میں ان کے نہایت ہی محترم
باپ کی یادگار کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ اللہ پاک میری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے۔
میں نے ان نظموں کی ترتیب اوقاتِ تصنیف
کے لحاظ سے رکھی ہے مگر کہیں کہیں تقدیم و تاخیر بھی ہو گئی ہے اگر میری زندگی میں
اس کی نَوبت آئی تو کتاب کی دوسری اِشاعت کے وقت انشاء اللہ نسبتاً بہتر ترتیب کے ساتھ
یہ مجموعہ مرتب ہو سکے گا۔ میں نے کتاب کے آخر میں حضرت میر صاحب کے وہ غیرمطبوعہ اشعار
بھی شامل کر دیے ہیں جو بُخارِ دِل حصہ دوم کی اشاعت کے بعد آپ نے وقتاً فوقتاً کہے۔
اب یہ حضرت میر صاحب کے کلام کا ایک مکمل مجموعہ بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ناظرینِ کرام
کو ان دِلآویز نظموں سے پورے طور پر اِس:تِفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی
                18۔رام گلی نمبر 3۔ لاہور
8اپریل 1970ء

اپنا تبصرہ بھیجیں