107۔ زخمِ دل جو ہو چکا تھا مدتوں سے مندمل

کلام
محمود صفحہ170

107۔ زخمِ دل جو ہو چکا تھا مدتوں سے مندمل

زخمِ دل جو ہو چکا تھا مدتوں سے مندمل
پھر ہرا ہونے کو ہےوہ پھر ہرا ہونے
کو ہے
پھر مرے سر میں لگے اٹھنے خیالاتِ جنوں
فتنۂ محشر مرے دل میں بپا ہونے کو ہے
پھر مری شامت کہیں لے جا رہی ہے کھینچ
کر
کیا کوئی پھر مائل ِجوروجفا ہونے کو
ہے
پھر کسی کی تیغِ ابرو اٹھ رہی ہے باربار
پھر مرا گھر موردِکرب وبلا ہونے کو
ہے
پھر بہا جاتا ہےآنکھوں سے مری اک سیلِ
اشک
پھر مرے سینہ میں اک طوفاں بپا ہونے
کو ہے
پھر چھٹا جاتا ہے ہاتھوں سے مرے دامان
ِصبر
نالۂ آہ وفغاں کا باب وا ہونے کو ہے
عمر گزرے گی مری کیا یونہی ان کی یاد
میں
کیا نہ رکھیں گے قدم وہ اس دل ناشاد
میں
اخبار الفضل جلد 30 ۔یکم جنوری 1942ء

اپنا تبصرہ بھیجیں