99۔ ملتا جلتا تھا حال میر ؔ کیساتھ

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ141۔143

99۔ ملتا جلتا تھا حال میر ؔ کیساتھ

ملتا جلتا تھا حال میر ؔ کیساتھ
میں بھی زندہ رہا ضمیر کیساتھ
ایک نمرود کی خدائی میں
زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ
آنکھ مظلوم کی خد ا کی طرف
ظلم اِک ظلمتِ کثیر کے ساتھ
جرم ہے اب مری محبت بھی
اپنے اس قادرو قدیر کے ساتھ
اُس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا
وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ
کس میں طاقت وفا کرے ایسی
اپنے بھیجے ہوئے سفیر کے ساتھ
سلسلہ وار ہے وہی چہرہ
عالمِ اصغر و کبیر کے ساتھ
آنے والا ہے اب حساب کا دن
ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ
تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح
کب تلک جنگ ایسے تیر کے ساتھ
شب دعاؤں میں تر بتر میری
صبح اِک خوابِ دلپذیر کے ساتھ
اہل دل کیوں نہ مانتے آخر
حرف روشن تھا اس حقیر کے ساتھ
1985ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں