120۔ اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا

ہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ39۔40

120۔ اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے
کیا

اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے
کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافرتو مجھے کیا
ویرانۂ جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی
چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے
کیا
وہ شمع میرے گھر میں  تو بے نور ہی ٹھہری
بازار میں  وہ جنس 
ہو نادر تو مجھے کیا
وہ رنگ فشاں آنکھ وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا
میں نے اسے چاہا تھا تو چاہا  نہ گیا میں
چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا
دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا
اِک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی
میں اپنی
اب کوئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا
1969ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں