124۔ دن گزارو کہ جاں نثار کرو

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ47۔48

124۔ دن گزارو کہ جاں نثار کرو

دل گزارو کہ جاں نثار کرو
دور صدیوں کا یہ غبار کرو
کوئی مذہب نہیں ہے خوشبو کا
عام یہ مُژدۂ بہار کرو
زندگی ایک بار ملتی ہے
دوستو زندگی سے پیار کرو
زُلف کی چھاؤں ہو کہ دار کی دھوپ
زندگہ ہو جہاں قرار کرو
جو ابھی قرض ہیں دل و جاں پر
ان شکستوں کا بھی شمار کرو
رات کہتی ہے سو رہوچُپ چاپ
دل یہ کہتا ہے انتظار کرو
اور کیا ہے تمہارے پاس علیم
تحفۂ شعر نذرِ یار کرو
1962ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں