186۔ کاش ہم بچہ ہی رہتے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ155

186۔ کاش
ہم بچہ ہی رہتے

کاش
ہم بچہ ہی رہتے
فلسفی
بولے
زمیں
کے ہاتھ میں اک شاخ ہے زیتون کی
بجھ
گئی تو بجھ گئی اور کِھل اٹھی تو کِھل اٹھی
ہم
ہی مر جائیں گے اک دن وقت تو مرتا نہیں
کاش
ہم بچہ ہی رہتے
اور
کبھی نہ ٹوٹنے والے کھلونے کھیلتے
1972ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں