73۔ تیل کے تالاب میں مچھلی کامنظر دیکھتے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
125۔126

73۔ تیل
کے تالاب میں مچھلی کامنظر دیکھتے

تیل کے تالاب میں مچھلی کامنظر دیکھتے
رام راجا تھے تو پرجا کا سوئمبر دیکھتے
آئنے لے کر نکل آئے کھلی سڑکوں پہ لوگ
آئنہ در آئنہ پتھر پہ پتھر دیکھتے
تجربہ تم کو بھی ہو جاتا عذابِ دید
کا
تم اگر ان فاصلوں کو اپنے اندر دیکھتے
روزنِ گل سے اسے اب عمر بھر دیکھا کرو
تم نے چاہا تھا کہ رنگ و بو کا پیکر
دیکھتے
وہ سراسر لمس کی لذّت سے تھا ناآشنا
لفظ کوچھونے سے پہلے اس کےتیور دیکھتے
کیسے کیسے خوبرویوں سے ملاقاتیں رہیں
آنکھ کھل جاتی تو ان چہروں کو کیونکر
دیکھتے
تم بھی دامن خون سے رنگین کر لیتے اگر
کتنا آتش رنگ ہے خونِ کبوتر دیکھتے
پہلے اپنا نام کھدواتے فصیلِ شہر پر
پھر گزرتے موسموں کا چور چکّر دیکھتے
تم کو بھی للکارتا دیوار کالکھا ہؤا
تم بھی آپے سے اگر باہر نکل کر دیکھتے
خون کی پیاسی تھی گر شہرِ نگاراں کی
زمیں
کوئی باغی ڈھونڈ لاتے، کوئی کافر دیکھتے
بید جی کرسی کے کاٹے کا بھی کچھ کرتے
علاج
کوئی پوتھی کھول لیتے، کوئی منتر دیکھتے
ہر کوئی اپنا نظر آتا تمھیں بھی عشق
میں
اُٹھ کے سینے سے لگاتے جس کو مضطرؔ
دیکھتے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں