72۔ میرا گھر بھی تیرا گھر تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
124

72۔ میرا گھر بھی تیرا گھر تھا

میرا گھر بھی تیرا گھر تھا
تُو اندر تھا، تُو باہر تھا
تیرے پیار کا جو منظر تھا
وہ الفاظ سے بالاتر تھا
پلکوں پر جو نورِ سحر تھا
اس سے تاریکی کو ڈر تھا
مجھ کو تھا کچھ فکر نہ فاقہ
میرا سر تھا، تیرا در تھا
تُو مرکز تھا میری جاں کا
میری ذات کا تُو محور تھا
مَیں اک بھوکا پیاسا راہی
تُو میرا حوضِ کوثر تھا
تیری یاد میں بہنے والا
ہر آنسو گھر کا زیور تھا
تُو محرم تھا میرے غم کا
تُو اس عہد کا دیدہ ور تھا
بے قامت تھے تیرے دشمن
تُو ہی تھا جو قدآور تھا
سب نے آنسو روک لیے تھے
بستی کو بارش کا ڈر تھا
اپنوں پر موقوف نہیں ہے
تُو غیروں کا بھی دلبر تھا
تیرا ہر دعویٰ تھا ّسچا
تُو ّسچائی کا پیکر تھا
تُو نے سب سے پیار کیا تھا
یہ الزام بھی تیرے سر تھا
سینہ لہولہان تھا تیرا
چہرہ بھی اشکوں سے تر تھا
حشر کا دن تھا گھر کے اندر
باہر بھی روزِ محشر تھا
خلقت ملنے کو آئی تھی
لیکن تُو سر گرمِ سفر تھا
باہر سورج ڈوب رہا تھا
اندر برفانی بستر تھا
تُو نے پیار کیا تھا جس سے
وہ ناچیز ترا مضطرؔ تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں