78۔ اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ135۔136

78۔ اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے

اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے
اسے رستہ نظر شاید نہ آئے
وہ نااُمّید ہے اتنا کہ اس کی
دعاؤں میں اثر شاید نہ آئے
دلِ نادان کو تم جانتے ہو
یہ باغی راہ پر شاید نہ آئے
چلا ہے ڈھونڈنے تصویر اپنی
اسے کچھ بھی نظر شاید نہ آئے
بڑی مدّت کے بعد آیا ہے واپس
یہ لمحہ لوٹ کر شاید نہ آئے
وہ جا کر بھی کبھی جاتا نہیں ہے
مگر بارِ دگر شاید نہ آئے
ستاروں ہی پہ کر لینا قناعت
کہ وہ رشکِ قمر شاید نہ آئے
کھلے رکھّو دریچے گھر کے، شاید
وہ آ جائے مگر شاید نہ آئے
تم اپنے سائے میں آرام کر لو
کہ رستے میں شجر شاید نہ آئے
وہ دریا پار کا ہے رہنے والا
اسے پانی سے ڈر شاید نہ آئے
کسی ٹہنی پہ کر لے گا بسیرا
پرندہ اب ادھر شاید نہ آئے
کہیں زیرِ زمیں کر لے گا آرام
مسافر اب کے گھر شاید نہ آئے
کنارے توڑ کر نکلا ہے سیلاب
کناروں کی خبر شاید نہ آئے
جسے تم ڈھونڈتے پھرتے ہو مضطرؔ!
وہ منزل عمر بھر شاید نہ آئے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں