180۔ کچھ یہاں اور کچھ وہاں گزری

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ270

180۔  کچھ
یہاں اور کچھ وہاں گزری

کچھ
یہاں اور کچھ وہاں گزری
خوب
گزری جہاں جہاں گزری
حالِ
دل سن کے ہو گئے خاموش
بات
سچّی تھی، کچھ گراں گزری
ان
کا غصّہ تھا، پیار تھا، کیا تھا
!
اک
قیامت تھی ناگہاں گزری
پنکھا
جھلتی ہوئی وفاؤں کا
یادِ
یارانِ مہرباں گزری
نور
میں ڈھل کے آنسوؤں کی پری
دیدۂ
تر سے پرفشاں گزری
چاند
نکلا نہ ہم نشیں آئے
شامِ
فرقت دھواں دھواں گزری
دن
گزارا خدا خدا کر کے
رات
کانٹوں کے درمیاں گزری
یہ
قیامت جو ہم پہ گزری ہے
تجھ
پہ اے بے خبر! کہاں گزری
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں