340۔ سوچتا ہوں تو تنہا تنہا لگتا ہوں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ503۔504

340۔ سوچتا ہوں تو تنہا تنہا لگتا ہوں

سوچتا ہوں تو تنہا تنہا لگتا ہوں
کھویا کھویا، بکھرا بکھرا لگتا ہوں
گر جاؤں تو بے حیثیت آنسو ہوں
رک جاؤں تو بے اندازہ لگتا ہوں
ناداں ہوں، نالائق ہوں اور بے ہنرا
جانے کیوں مَیں اس کو اچھا لگتا ہوں
وہ سچا ہے، کتنا سچا لگتا ہے
میں جھوٹا ہوں، کتنا جھوٹا لگتا ہوں
جب سے دیکھا ہے وہ اتنا اونچا ہے
پہلے سے بھی بڑھ کر چھوٹا لگتا ہوں
بِن اس کے اس ہنستی بستی دُنیا میں
اپنا لگتا ہوں نہ پرایا لگتا ہوں
میرا اس کا ساتھ ہے چولی دامن کا
وہ میراہے اور مَیں اس کا لگتا ہوں
اس کی خاطر تاج پہن کر کانٹوں کا
لذّت کی سولی پر بیٹھا لگتا ہوں
مجھ کو بھی دو گھونٹ عطا ہوں شبنم کے
صحرا ہوں اور کتنا پیاسا لگتا ہوں
لگتا ہے یہ گلیاں دیکھی بھالی ہیں
پہلے بھی اس شہر میں آیا لگتا ہوں
مضطرؔ! مَیں تخلیق ہوں اپنے خالق کی
وہ جانے مَیں اس کو کیسا لگتا ہوں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں