33۔ حضرت سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صا حبہؓ کی یاد میں

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ132۔133

33۔ حضرت سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صا حبہؓ
کی یاد میں

دُخترِ احمد، مسیحِ پاک کی لختِ جگر
ہوں ہزاروں رحمتیں اس کی مبارک ذات
پر
پاک طینت، باصفا، عالی گُہر،” دُختِ
کِرام
سیّدہؓ کی جان، مہدی ؑ کی حسیں نُورِ
نظر
ذات جس کی عظمتِ اسلاف کا پَر تَو لئے
وہ کہ جو تھی گلشنِ احمد کا اک شیریں
ثمر
ہستیاں ہوتی ہیں کچھ ایسی کہ جب رخصت
ہوں وہ
ساتھ اُن کے اِک مکمّل دَور ہے جاتا
گزر
یہ نشانی بھی مرے محبوب کی رخصت ہوئی
دیکھنا چاہے گی پر نہ دیکھ پائے گی
نظر
اُس سے مل کر بھی بہت تسکین پا جاتے
تھے لوگ
فرقتِ آقا کے زخموں کو وہ کچھ دیتی
تھی بَھر
وار کچھ ایسا اجل کا تھا کہ یکدم گِر
گیا
باردار و خوبصورت، ایک چھتناور شجر
کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃَ
الْمَوْت ”
ہے قرآن میں
ہو کہیں کوئی نہیں ہے موت سے اس کو
مفر
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی
کہ پنہاں ہو گئیں ”١؎
یاد کر کے جن کو میرے چشم و دل آتے
ہیں بھر
قاعدہ ہے زندگی میں قدر ہم کرتے نہیں
بعد میں پھر یاد کرتے ہیں اُنہیں با
چشمِ تر
جانتے تو سب ہیں کہ یہ زندگی ہے بے
ثبات
پر نہیں یہ سوچتے کہ اس قدر ہے مختصر!
رُوح منزل پہ پہنچ آرام پاجاتی ہے واں
ختم ہو جاتا ہے جب اِس زندگانی کا سفر
جانے والے چھوڑ جاتے ہیں وہ زخمِ بے
نشاں
کہ تپک جاتی نہیں سینے سے جن کی عُمر
بھر
ہے ہمارے پاس تو بس اک دُعاؤں کی سبیل
کاش پیدا ہو ہماری بھی دُعاؤں میں اثر
آسماں تیری لحد پہ نُور افشانی
کرے ”٢؎
رحمتِ حق یاں ہماری بھی نگہبانی کرے
١؎ یہ مصرع غالب کا ہے۔   ٢؎ یہ مصرع علامہ اقبال کا ہے۔
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں