61۔ ہوئی سجدہ ریز مَیں جو تو زمیں نے دی دہائی

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ204۔205

61۔ ہوئی سجدہ ریز مَیں جو تو زمیں نے دی
دہائی

ہوئی سجدہ ریز مَیں جو تو زمیں نے دی
دہائی
کہ مَرا خراب کر دی تو بہ سجدۂ
ریائی”١؎
مجھے گود میں اُٹھایا، مجھے سینے سے
لگایا
مرے کام آگئی ہے یہ مری شکستہ پائی
تجھے کیا خبر ہے زاہد! اسے کیا پسند
آئے؟
مِری حالتِ ندامت! ترا فخر پارساَئی
یہ تری صلوٰۃ و سُجہ نہ جچی کسی نظر
میں
تجھے کر رہا ہے رسوا ترا شوقِ خود نمائی
تری محفلوں کا واعظ! وہی رنگ ہے پرانا
وہی تیری کم نگاہی، وہی تیری کج ادائی
نہ یہاں ہی پوچھ تیری، نہ وہاں مقام
تیرا
نہ خدائی معترف ہے، نہ خُدا سے آشنائی
یہ حیات و موت کیا ہے، یہی گردشِ زمانہ
یہی عارضی سی قُربت، یہی عارضی جُدائی
اُسے کاش نہ خبر ہو کہ مآلِ زیست کیا
ہے
بڑے شوق و آرزو سے جو کَلی ہے مسکرائی
تری رحمتوں کا مالک! مجھے چاہیئے سہارا
ہَے یہ وقتِ کسمپُرسی ہے یہ دَورِ نارسائی
یہ مکین پستیوں کے بڑا ناز کر رہے ہیں
مرے مہرباں! دکھادے ذرا شانِ کبریائی
تری غیرتوں کا طالب، تری نعمتوں کا
عادی
ترے سامنے پڑا ہے مرا کاسۂ گدائی
جو دیا ترا کرم ہے نہیں مجھ میں بات
کوئی
نہ طریقِ خوش کلامی، نہ ادائے دلرُبائی
ہیں ترے حضور حاضر یہ ندامتوں کے تحفے
مِری زندگی کا حاصل، مری عُمر کی کمائی
١؎ یہ مصرع عرفیؔ کا ہے۔
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں