99۔ لذّت

بخار
دل صفحہ219۔221

99۔
لذّت

اس نظم میں حسب ذیل حقیقتیں واضح کی
گئیں ہیں۔ (1) انسان کی فطرت طالبِ لذّتِ جسمانی بنائی گئی ہے۔ (2) اس کی ساری کوششیں
اسی مطلب کے لئے ہوتی ہیں۔ (3) بغیر مسلسل لذّتِ حواسِ خمسہ کے اس کی زندگی تلخ رہتی
ہے۔ (4) چونکہ وہ جسمانی لذّت کا ہر وقت طالب ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے آخرت میں اُس
کے لئے ایک لذّت دائمی کا گھر تیار کیا ہے۔ (5) اس گھر کا نام جنت ہے کیونکہ اس کی
فطرت اسی کی طالب تھی۔ (6) اس جنت کے ملنے کے لئے دو شرائط رکھی ہیں اور اُن ہی کو
انسان کے لئے دین اور مجاہدات اور سلوک کا راستہ قرار دیا ہے۔ (7) پہلی شرط یہ ہے کہ
اس دنیا کی لذّتیں جو عارضی اور مکدّر ہیں اُن کو اُسے حَتَی المقدور ترک کرنا پڑے
گا کہ وہ صرف بقدر ضرورت اور بطور نمونہ ہیں۔ (8) دوسرے خدا تعالیٰ جو منعمِ حقیقی
اور معطئ لذّات ہے اُس کی رضا حاصل کرنی پڑے گی اور شرک چھوڑ کر بکلّی اُس کی طرف متوجہ
ہونا پڑے گا۔ (9) جب یہ دونوں باتیں حاصل ہو جائیں گی یعنی ترکِ دُنیا اور عشقِ الٰہی
تو پھر اس کے لئے اَبَدی اور غیر مکدّر جنت کا راستہ صاف ہے، جہاں رضائے الٰہی اور
کلام الٰہی تمام نعمائے جسمانی کے ساتھ حسبِ خواہش ملیں گی اور انہی سب باتوں کانام
وصلِ الٰہی ہے۔ (10) یاد رکھنا چاہئے کہ بغیر منعم کی محبت اور رضا کے اُس کی نعمتیں
اُڑانا چوری ہے۔ (11) اسی طرح بغیر دائمی جسمانی نعمتوں کے محض عشقِ الٰہی بھی بے معنی
چیز ہے کیونکہ خدا سے محبت ہی کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ جب تک نعمتوں کے احسانات انسان
کو محبت کرنے پر مجبور نہ کر دیں۔ آدمی کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرتا
ہے اور کسی سے نہیں اور جہاں بھی محبت دیکھو گے۔ یہی پاؤ گے۔ کہ اس کی اصل وجہ کوئی
نہ کوئی احسان ہے۔ (12) صرف ”روحانی جنّت” یعنی محض آنند میں رہنا ایک فرضی چیز ہے
یا شاید موت اور مٹی ہو جانے کا دوسرا نام۔
سُن!
غور سے اَے جان تو افسانۂ لذّت
مطلب
ہے تِری زیست کا میخانۂ لذّت
انسان
حقیقت میں ہے دیوانۂ لذّت
یا
شمعِ تَنَعُّم کا ہے پروانۂ لذّت
دنیا
تو ہے بازیچۂ طِفلانۂ لذّت
فردوس
ہی ہے اصل میں خُمخانۂ لذّت
لذّات
تو دُنیا میں نمونہ کے لئے ہیں
جنت
کا بنے تاکہ تو مستانۂ لذّت
اُس
صوفئ احمق کی ذرا عقل تو دیکھو
مذہب
کو بتاتا ہے جو بیگانۂ لذّت
معشوق
ہے انسان کا گو خالِقِ نعمت
مَقصود
مگر اُس کا ہے میخانۂ لذّت
فطرت
میں خمیر اُس کے ہے لذّت ہی کی خواہش
جسمانی
مزوں کا ہے یہ مَستانۂ لذّت
لذّت
کے سوا تلخ ہے سب زندگی اس کی
مر
جائے نہ گر پائے یہ ۔نذرانۂ لذّت
ہر
وقت سرِشت اس کی ہے مائل بہ لذائذ
کوشش
ہے پئے ساغَر و پیمانۂ لذّت
دُنیا
کے مگر لُطف ہیں فانی و مُکَدَّر
ہے
عارِضی اور تَلخ یہ کاشانۂ لذّت
لذّات
کو دنیا کی تو کر ترک اے طالِب
!
عُقبیٰ
کا ملے تا تجھے خُم خانۂ لذّت
بھولے
گا تو ساقی کو’ اگر ان میں پڑے گا
گم
ہو گی کلیدِ در میخانۂ لذّت
ہے
خالقِ نُعمات خداوندِ دو عالَم
مانگ
اُس سے دُعا تا ملے خُم خانۂ لذّت
اس
ترک سے مولیٰ کی رَضا تجھ کو ملے گی
دُنیا
کا یہی ترک ہے، بیعانۂ لذّت
ہم
عاشقِ ساقی ہیں، وہ مُنعِم ہے ہمارا
محسن
ہے مِرا ساقئ میخانۂ لذّت
اِحسان
کا مطلب ہے فراوانۂ نِعمت
نِعمت
ہی ہے گر سوچو تو پیمانۂ لذّت
ہے
دائمی اور غیر مکّدر وہی بادہ
پلوائے
گا جو ساقئ خُم خانۂ لذّت
جنت
میں تو ہے یار بھی اور وصل و رضا بھی
ہے
خانۂ دلدار ہی کاشانۂ لذّت
اے
ساقئ میخانہ! خُدارا یہ کرم کر
دے
ہم کو سراَفرازئ شاہانۂ لذّت
جنت
ہے تِرے فضل کی اِک کانِ
تَنَعُّمْ
دوزخ
ہے تِرے قہر سے ویرانۂ لذّت
اے
مُنْعَمِ جاں بخش! عطا عشق ہو تیرا
جنت
میں ملے جلوۂ جانانۂ لذّت
دنیا
میں نہ ہو حِرص سفیہانہ مزوں کی
عُقبیٰ
کا مِلے ذوقِ فقیہانۂ لذّت
اِسلام
نے فردوس کی نعمت جو عطا کی
آ،
پیش کریں سب کو یہ شکرانۂ لذّت

اپنا تبصرہ بھیجیں