52۔ انڈونیشیا

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ129۔131

52۔ انڈونیشیا

انڈونیشیا کے تاریخی سفر کے دوران جلسہ سالانہ انڈونیشیا 2000ء کے موقع پر پڑھی
گئی۔
اے عظیم انڈونیشیا
جایا لہ۔ انڈونیشیا
تجھ میں تھیں جو چشم ہائے تر
رحمت علی سے بہرہ ور
آج بھی ہیں ان میں سے کئی
نرگسی خصال ، دیدہ ور
جن کو نور کر گیا عطا
وہ خدا کا بے ریا بشر
وہ فقیر جس کی آنکھ میں
نور مصطفی تھا جلوہ گر
اے عظیم انڈونیشیا
جایا لہ۔ انڈونیشیا
ابراہیم وقت کا سفیر
تھا جسے تسلط آگ پر
وہ غلام اس کے در کا تھا
جس کی آگ تھی غلام ِدر
بے شمار گھر جلا کے جب
پہنچی شعلہ زن وہ اس کے گھر
سرد پڑ گئی اور ہو گئی
ڈھیر آپ ، اپنی راکھ پر
اے عظیم انڈونیشیا
جایا لہ۔ انڈونیشیا
تیری سرزمیں کی خاک سے
مثل آدم اولیاء اُٹھے
پھر انہی کی خاکِ پاک سے
بے شمار باخدا اُٹھے
اُن کی سرمدی قبور سے
آج بھی یہی ندا اُٹھے
کاش تیری مٹی سے مدام
جو اٹھے وہ پارسا اُٹھے
اے عظیم انڈونیشیا
جایا لہ۔ انڈونیشیا
کتنا خوش نصیب ہوں کہ میں
تجھ سے ہو رہا ہوں ہم کلام
اک غلام خیرالانبیاء
کا غلام در غلام در غلام
تحفہ ء خلوص لایا ہوں
تجھ پہ بھیجتا ہوا سلام
نفرتوں کا میں نہیں نقیب
صلح و آشتی کا ہوں پیام
اے عظیم انڈونیشیا
جایا لہ۔ انڈونیشیا
تیرا سر ہے تاجدارِ حسن
خاک پا ہے سبزہ زارِ حسن
ہر حسین کوہسار سے
پھوٹتی ہے آبشارِ حسن
جس سے وادیوں میں ہر طرف
بہ رہی ہے رُودبارِ حسن
ہر گھڑی ہوں تجھ پہ گل نثار
سبز پوش اے نگار حسن
اے عظیم انڈونیشیا
جایا لہ۔ انڈونیشیا

اپنا تبصرہ بھیجیں