97۔ موت اس کی رہ میں گر تمھیں منظور ہی نہیں

کلام
محمود صفحہ157

97۔ موت اس کی رہ میں گر تمھیں منظور ہی
نہیں

موت اس کی رہ میں گر تمھیں منظور ہی
نہیں
کہہ دو کہ عشق کا ہمیں مقدور ہی نہیں
کیوں جُرمِ نقضِ عہد کے ہوں مرتکب جناب
جب آپ عہد کرنے پہ مجبور ہی نہیں
مومن تو جانتے ہی نہیں بُزدلی ہے کیا
اس قوم میں فرار کا دستور ہی نہیں
ڈر کا اثر ہو ان پہ نہ لالچ کا ہو اثر
ہوش آئیں جن کو ایسے یہ مخمور ہی نہیں
دل دے چُکے تو ختم ہوا قصۂ حساب
معشوق سے حساب کا دستور ہی نہیں
بحرِ فنا میں غوطہ لگا نے کی دیر ہے
منزل قریب تر ہے وہ کچھ دور ہی نہیں
دشمن کی چیرہ دستیوں پہ اے خدا گواہ
ہیں زخم ِ دل بھی سینے کے ناسور ہی
نہیں
اس مھرِ نیم روز کو دیکھیں تو کس طرح
آنکھوں میں ظالموں کے اگر نُور ہی نہیں
اخبار الفضل جلد 26 ۔ 29دسمبر 1938ء

اپنا تبصرہ بھیجیں