39۔مُناجات اور تبلیغِ حق

مُناجات اور تبلیغِ حق
اے خدا اے کارساز وعیب پوش و کردگار
اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
بدگمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ
کردیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار
کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا
مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار
تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم
کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعتِ قرب وجوار
کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
یہ سراسر فضل وا حساں ہے کہ میں آیا پسند
ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمتگذار
دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے
پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے میرے حاجت برار
اے مرے یار یگانہ اے مرے جاں کی پنہ
بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار
میں تو مرکر خاک ہوتا گرنہ ہوتا تیرا لطف
پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار
اے فدا ہو تیری راہ میں میراجسم و جان و دل
میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار
ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا میں مثلِ طفل شیر خوار
نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے
تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
میں تو نالائق بھی ہوکر پاگیا درگہ میں بار
اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم
جن کا مشکل ہے کہ تاروزِ قیامت ہوشمار
آسماں میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار
تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کیلئے
تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار
ہوگئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا
ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثلِ غبار
سرزمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی
جیسے ہووے برق کا اک دم میں ہرجا انتشار
پھر دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں
تا وہ نخلِ راستی اس ملک میں لاوے ثمار
لوگ سو بک بک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں
تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں راز دار
ہاتھ میں تیرے ہے ہر خسران و نفع و عسرویسر
تو ہی کرتا ہے کسی کو بےنوا یا بختیار
جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو
جس کو چاہے تخت سے نیچے گراوے کر کے خوار

میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشاں
جس کو تو نے کردیا ہے قوم ودیں کا افتخار
فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار
سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار
عزت و ذلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں
تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار
میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کردیا
کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار
تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں
گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار
ابتداء سے گوشہ ءخلوت رہا مجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار
اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تاردّ کروں حکم شہ ذی الاقتدار
اب تو جو فرماں ملا اُس کا ادا کرنا ہے کام
گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دل فگار
دعوتِ ہر ہرزہ گو کچھ خدمتِ آساں نہیں
ہر قدم میں کوہِ ماراں ہرگزر میں دشتِ خار
چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب
پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پکار
قبضہ ء تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا
پھیردے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار
گر کرے معجز نمائی ایک دم میں نرم ہو
وہ دل سنگین جو ہووے مثلِ سنگ کو ہسار
ہاے میری قوم نے تکذیب کرکے کیا لیا
زلزلوں سے ہوگئے صدہا مساکن مثلِ غار
شرط تقویٰ تھی کہ وہ کرتے نظر اس وقت پر
شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار
کیا وہ سارے مرحلے طے کرچکے تھے علم کے
کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار
دل میں جو ارماں تھے وہ دل میں ہمارے رہ گئے
دشمن جاں بن گئے جن پر نظر تھی باربار
ایسے کچھ بگڑے کہ اب بنتا نظر آتا نہیں
آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار
کس کے آگے ہم کہیں اس دردِ دل کا ماجرا
اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا درکنار
کیا کروں کیونکر کروں میں اپنی جاں زیرو زبر
کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نقار
اِس قدر ظاہر ہوئے ہیں فضل حق سے معجزات
دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دل فگار
پر نہیں اکثر مخالف لوگوں کو شرم و حیا
دیکھ کر سو سو نشاں پھر بھی ہے تو ہیں کاروبار
صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار
دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار
اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مرا
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شورہے
خاک میں ہوگا یہ سرگر تو نہ آیا بن کے یار
فضل کے ہاتھوں سے اب اِس وقت کر میری مدد
کشتی اسلام تا ہو جائے اس طوفاں سے پار
میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر
تا نہ خوش ہو دشمن دیں جس پہ ہے لعنت کی مار
میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں
میری فریادوں کو سن میں ہوگیا زار و نزاد
دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دینِ مصطفےٰ
مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار
کیا سلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مراد
یہ تو تیرے پر نہیں امید اے میرے حصار
یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار
قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے
چھا رہا ہے ابر یاس اور رات ہے تاریک و تار
ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر
پھیر دے اب میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار
اب نہیں ہیں ہوش اپنے ان مصائب میں بجا
رحم کر بندوں پہ اپنے تا وہ ہوویں رستگار
کس طرح نپٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیں
بے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سو ہر کنار
ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا
آگیا اس قوم پر وقتِ خزاں اندر بہار
نورِ دل جاتا رہا اور عقل موٹی ہوگئی
اپنی کجرائی پہ ہردل کر رہا ہے اعتبار
جس کو ہم نے قطرہء صافی تھا سمجھا اور تقی
غور سے دیکھا تو کیڑے اُس میں بھی پائے ہزار
دوربین معرفت سے گند نکلا ہر طرف
اس وبا نے کھالئے ہر شاخِ ایماں کے ثمار
اے خدا بن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح
جل گیا ہے باغ تقویٰ دیں کی ہے اب اک مزار
تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو
ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار
اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہوگیاہے بے نشاں
اِک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار
کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سوگئے
کس قدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار
عقل پر پردے پڑے سوسو نشاں کو دیکھ کر
نور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہلِ نار
گرنہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا
اُس کا ہووے ستیاناس اِس سے بگڑے ہوشیار
بدگمانی سے تورائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ
پرکےاک ریشہ سے ہوجاتی ہے کووں کی قطار
حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوفِ خدا
کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار
کیا خدا نے اتقیاء کی عون و نصرت چھوڑ دی
ایک فاسق اور کافر ہے وہ کیوں کرتا ہے پیار
ایک بد کردار کی تائید میں اتنے نشاں
کیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار
کیا بدلتا ہے وہ اب اس سنت و قانون کو
جس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار
آنکھ گر پھوٹی تو کیا کانوں میں بھی کچھ پڑ گیا
کیا خدا دھوکے میں ہے اور تم ہو میرے راز دار
جس کے دعویٰ کی سراسر افتراء پر ہے بنا
اُس کی تائید ہو پھر جھوٹ سچ میں کیا نکھار
کیا خدا بھولا رہا تم کو حقیقت مل گئی
کیا رہا وہ بے خبر اور تم نے دیکھا حال زار
بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کردیا
ورنہ تھے میری صداقت پر برا ہیں بیشمار
جہل کی تاریکیاں اور سوء ظن کی تند باد
جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار
زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت وفنا
بدگمانی زہر ہے اس سے بچو اے دیں شعار
کانٹے اپنی راہ میں بوتے ہیں ایسے بدگمان
جن کی عادت میں نہیں شرم و شکیب و اصطبار
یہ غلط کاری بشر کی بدنصیبی کی ہے جڑ
پر مقدر کو بدل دینا ہے کس کے اختیار
سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں
دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار
جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہء زار ونزار
ہے سرِرہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم
پس نہ بیٹھو میری رہ میں اے شریرانِ دیار
سنت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے
تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مردار خوار
مجھ کو پردے میں نظرآتا ہے اِک میرا معین
تیغ کو کھینچے ہوئے اُسپر کہ جو کرتا ہے وار
دشمن غافل اگر دیکھے وہ بازو وہ سلاح
ہوش ہو جائیں خطا اور بھول جائے سب نقار
اس جہاں کا کیا کوئی داور نہیں اور داد گر
پھر شریر النفس ظالم کو کہاں جائے فرار
کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہوکر مسیح
خود مسیحائی کادم بھرتی ہے یہ بادِ بہار
آسماں پر دعوتِ حق کیلئے اک جوش ہے
ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار
آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج
نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار
کہتے ہیں تثلث کو اب اہل دانش الوداع
پھر ہوئے ہیں چشمہ ءتوحید پراز جاں نثار
باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا
آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار
آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے
گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اُس کا انتظار
ہر طرف ہر ملک میں ہے بت پرستی کا زوال
کچھ نہیں انساں پرستی کو کوئی عزو وقار
آسماں سے ہے چلی توحیدِ خالق کی ہوا
دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار
اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح
نیز بشنو از زمیں آمد امامِ کامگار
آسماں بارد نشان الوقت می گوید زمیں
ایں دو شاہداز پئے من نعرہ زن چوں بیقرار
اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے
وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار
اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار
اے مکذّب کوئی اس تکذیب کا ہے انتہا
کب تلک تو خوئے شیطاں کو کرے گا اختیار
ملّت احمد کی مالک نے جو ڈالی تھی بِنا
آج پوری ہو رہی ہے اے عزیزانِ دیار
گلشنِ احمد بنا ہے مسکنِ بادِ صبا
جس کی تحریکوں سے سنتا ہے بشر گفتارِ یار
ورنہ وہ ملّت وہ رہ وہ رسم وہ دیں چیز کیا
سایہ افگن جس پہ نور حق نہیں خورشید وار
دیکھ کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہو گیا
قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال درِّ شاہوار
ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف
وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیرِ غار
نُورِ دل جاتا رہا اِک رسم دیں کی رَہ گئی
پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلحِ دیں کیا بکار
راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں
وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلافِ شہریار
ہائے مارِ آستیں وہ بن گئے دیں کے لئے
وہ تو فربہ ہو گئے پر دیں ہوا زار و نزار
اِن غموں سے دوستو خم ہو گئی میری کمر
میں تو مرجاتا اگر ہوتا نہ فضل کردگار
اِس تپش کو میری وہ جانے کہ رکھتا ہے تپش
اِس اَلَم کو میرے وہ سمجھے کہ ہے وہ دِلفگار
کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا
مہر و ماہ کی آنکھ غم سے ہوگئی تاریک و تار
مفتری کہتے ہوئے ان کو حیا آتی نہیں
کیسے عالِم ہیں کہ اُس عالَم سے ہیں یہ برکنار
غیرکیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے
وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار
میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اِک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے
میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار
پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب
گر نہ ہوتا نام احمدؐ جس پہ میرا سب مدار
دشمنوں! ہم اس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی
کیا کرو گے تم ہماری نیستی کا انتظار
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
کیا کروں تعریف حُسنِ یار کی اور کیا لکھوں
اک ادا سے ہو گیا میں سیلِ نفسِ دوں سے پار
اس قدر عرفاں بڑھا میرا کہ کافر ہو گیا
آنکھ میں اس کی کہ ہے وہ دور تر از صحنِ یار
اُس رُخِ روشن سے میری آنکھ بھی روشن ہوئی
ہو گئے اسرار اس دلبر کے مجھ پر آشکار
قوم کے لوگو! اِدھر آؤ کہ نکلا آفتاب
وادئ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار
کیا تماشا ہے کہ میں کافر ہوں تم مومن ہوئے
پھر بھی اس کافر کا حامی ہے وہ مقبولوں کا یار
کیا اچنبھی بات ہے کافر کی کرتا ہے مدد
وہ خدا جو چاہیئے تھا مومنوں کا دوستدار
اہلِ تقویٰ تھا کرم دیں بھی تمہاری آنکھ میں
جس نے ناحق ظلم کی رہ سے کیا تھا مجھ پہ وار
بے معاون مَیں نہ تھا تھی نُصرتِ حق میرے ساتھ
فتح کی دیتی تھی وحیِ حق بشارت بار بار
پر مجھے اُس نے نہ دیکھا آنکھ اُس کی بند تھی
پھر سزا پاکر لگایا سرمۂ دُنبالہ دار
نام بھی کذّاب اس کا دفتروں میں رہ گیا
اب مٹا سکتا نہیں یہ نام تا روزِ شمار
اب کہو کس کی ہوئی نُصرت جنابِ پاک سے
کیوں تمہارا متقی پکڑا گیا ہو کر کے خوار
پھر اِدھر بھی کچھ نظر کرنا خدا کے خوف سے
کیسے میرے یارنے مجھ کو بچایا باربار
قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیر مکر
بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار
پھر لگایا ناخنوں تک زور بن کر اک گروہ
پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار
ہم نگہ میں اُن کی دجاّل اور بے ایماں ہوئے
آتش تکفیر کے اُڑتے رہے پیہم شرار
اب ذرا سوچو دیانت سے کہ یہ کیا بات ہے
ہاتھ کس کا ہے کہ ردّ کرتا ہے وہ دشمن کا وار
کیوں نہیں تم سوچتے کیسے ہیں یہ پردے پڑے
دل میں اُٹھتا ہے مرے رہ رہ کے اب سوسو بخار
یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں
ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار
کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار
پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر
ورنہ اُٹھ جائے اماں پھر سچے ہوویں شرمسار
اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاّب کی
کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار
ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار
آفتاب صبح نکلا اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ
دن سے ہیں بیزار اور راتوں سے وہ کرتے ہیں پیار
روشنی سے بغض اور ظلمت پہ وہ قربان ہیں
ایسے بھی شپر نہ ہونگے گرچہ تم ڈھونڈو ہزار
سر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند
مرتے ہیں بن آب وہ اور درپہ نہرِ خوشگوار
طرفہ کیفیت ہے اُن لوگوں کی جو منکرہوئے
یوں تو ہر دم مشغلہ ہے گالیاں لیل و نہار
پر اگر پوچھیں کہ ایسے کاذبوں کے نام لو
جن کی نصرت سالہا سے کررہا ہو کردگار
مردہ ہو جاتے ہیں اس کا کچھ نہیں دیتے جواب
زرد ہو جاتا ہے منہ جیسے کوئی ہو سوگوار
اُنکی قسمت میں نہیں دیں کے لئے کوئی گھڑی
ہوگئے مفتونِ دنیا دیکھ کر اُس کا سنگار
جی چرانا راستی سے کیا یہ دیں کا کام ہے
کیا یہی ہے زہد و تقویٰ کیا یہی راہ خیار
کیا قسم کھائی ہے یا کچھ پیچ قسمت میں پڑا
روزِ روشن چھوڑ کر میں عاشقِ شب ہائے تار
انبیاء کے طور پر حجت ہوئی اُن پر تمام
اُنکے جو حملے ہیں اُن میں سب نبی ہیں حصہ دار
میری نسبت جو کہیں کیں سے وہ سب پر آتا ہے
چھوڑ دیں گے کیا وہ سب کو کفر کرکے اختیار
مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر
یہ تو ہے سب شکل اُن کی ہم تو ہیں آئینہ وار
ساٹھ سے ہیں کچھ برس میرے زیادہ اس گھڑی
سال ہے اب تیسواں دعویٰ پہ از روئے شمار
تھا برس چالیس کا میں اس مسافر خانہ میں
جبکہ مں نے وحی رباّنی سے پایا افتخار
اس قدر یہ زندگی کیا افتراء میں کٹ گئی
پھر عجب تر یہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بحار
ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں
ہر عدو پر حجّتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار
نعمتیں وہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے
جن سے ہیں معنی اتممت
علیکم
آشکار
سایہ بھی ہو جائے ہے اوقاتِ ظلمت میں جدا
پر رہا وہ ہر اندھیرے میں رفیق و غمگسار
اس قدر نصرت تو کاذب کی نہیں ہوتی کبھی
گر نہیں باور نظریں اس کی تم لاؤ دو چار
پھر اگر ناچار ہو اس سے کہ دو کوئی نظیر
اُس مہمین سے ڈرو جو بادشاہ ہر دو وار
یہ کہاں سے سن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو
کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرو عصیاں ہزار
نعرہِء اِنَّا ظلمنا سنتِ ابرارہے
زہر منہ کی مت دکھاؤ تم نہیں ہونسلِ مار
جسم کومل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں
دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردگار
اپنے ایماں کو ذرا پردہ اُٹھاکردیکھنا
مجھ کو کافر کہتے کہتے خودنہ ہوں از اہلِ نار
گرحیا ہو سوچ کر دیکھیں کہ یہ کیاراز ہے
وہ مری ذلّت کو چاہیں پارہا ہوں میں وقار
کیا بگاڑا اپنے مکروں سے ہمارا آج تک
اژدھا بن بن کے آئے ہوگئے پھر سوسمار
اے فقیہو عالمو! مجھ کو سمجھ آتا نہیں
یہ نشانِ صدق پاکر پھر یہ کیں اور یہ نقار
صدق کو جب پایا اصحابِ رسول اللہ نے
اُس پہ مال و جان و تن بڑھ بڑھ کے کرتے تھے نثار
پھر عجب یہ علم یہ تنقید آثار وحدیث
دیکھ کر سوسو نشاں پھر کررہے ہو تم فرار
بحث کرنا تم سے کیا حاصل اگر تم میں نہیں
رُوح انصاف و خدا ترسی کہ ہے دیں کامدار
کیامجھے تم چھوڑتے ہو جاہِ دنیا کیلئے
جاہِ دنیا کب تلک دُنیا ہے خود ناپائیدار
کون درپردہ مجھے دیتا ہے ہر میداں میں فتح
کون ہے جو تم کو ہر دم کررہا ہے شرمسار
تم تو کہتے تھے کہ یہ نابود ہو جائے گا جلد
یہ ہمارے ہاتھ کے نیچے ہے اِک ادنیٰ شکار
بات پھر یہ کیا ہوئی کس نے مری تائید کی
خائب و خاسر ر ہے تم ہوگیا میں کامگار
اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار
اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر
جوکہ اب پوری ہوئی بعد از مرورِ روزگار
کھول کر دیکھو براہیں جوکہ ہے میری کتاب
اُس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار
اب ذرا سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
اس قدر امرِ نہاں پر کس بشر کو اقتدار
قدرتِ رحمان و مکر آدمی میں فرق ہے
جو نہ سمجھے وہ غبی از فرق تاپا ہے حمار
سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے
راہِ حرماں چھوڑو ورحمت کے ہو امیدوار
سوچ لو یہ ہاتھ کس کا تھا کہ میرے ساتھ تھا
کس کے فرماں سے میں مقصد پاگیا اور تم ہو خوار
یہ بھی کچھ ایماں ہے یارو ہم کو سمجھائے کوئی
جس کا ہر میداں میں پھل حرماں ہے اور ذلت کی مار
غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجاّل ہے
میں تو خود رکھتا ہوں اُن کے دیں سے اور ایماں سے عار
گریہی دیں ہے جو ہے اُن کی خصائل سے عیاں
میں تو اِک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار
جان و دل سے ہم نثارِ ملت اسلام ہیں
لیک دیں وہ رہ نہیں جس پر چلیں اہلِ نقار
واہ رے جوش جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ
جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار
نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں
اس کو ہیرامت گماں کر ہے یہ سنگِ کوہسار
پیٹنا ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مرگئے
جبکہ ایماں کے تمہارے گند ہوں گے آشکار
ہے یہ گھر گرنے پہ اے مغرور لے جلدی خبر
تانہ دب جائیں ترے اہل و عیال و رشتہ دار
یہ عجب بدقسمتی ہے کس قدر دعوت ہوئی
پر اُترتا ہی نہیں ہے جامِ غفلت کا خمار
ہوش میں آتے نہیں سو سو طرح کوشش ہوئی
ایسے کچھ سوئے کہ پھر ہوتے نہیں ہیں ہوشیار
دن برے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و وبا
اب تلک توبہ نہیں اب دیکھئے انجام کار
ہے غضب کہتے ہیں اب وحی ء خدا مفقود ہے
اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصوں پر مدار
یہ عقیدہ برخلاف گفتہء دادار ہے
پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر
اک یہی دیں کیلئے ہے جائے عزو افتخار
یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں
یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشک تتار
یہ ہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے درکھلیں
یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار
بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے
بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار
ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں
محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفان سے پار
ہے یہی وحیء خدا عرفانِ مولیٰ کا نشان
جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار
واہ رے باغِ محبت موت جس کی رہ گذر
وصلِ یار اس کا ثمر۔ پر ارد گرد اس کے ہیں خار
ایسے دل پر داغ لعنت سے، ازل سے تا ابد
جو نہیں اس کی طلب میں بیخود دیوانہ وار
پر جو دنیا کے بنے کیڑے وہ کیا ڈھونڈیں اُسے
دیں اُسے ملتا ہے جو دیں کے لئے ہو بےقرار
ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار
یاد وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں
مہدیء موعود حق اب جلد ہوگا آشکار
کون تھا جس کی تمنا یہ نہ تھی اک جوش سے
کون تھا جس کو نہ تھا اُس آنے والے سے پیار
پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی
سب سے اوّل ہوگئے منکر یہی دیں کے منار
پھر دوبارہ آگئی احبار میں رسم یہود
پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ جبہ دار
تھا نوشتوں میں یہی از ابتداء تا انتہا
پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقش جدار
میں تو آیا اس جہاں میں ابن مریم کی طرح
میں نہیں مامور از بہر جہاد و کارزار
پر اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی
اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بے شمار
ایسے مہدی کیلئے میداں کھلا تھا قوم میں
پھر تو اس پر جمع ہوتے ایک دم میں صد ہزار
پر یہ تھا رحم خداوندی کہ میں ظاہر ہوا
آگ آتی گرنہ میں آتا تو پھر جاتا قرار
آگ بھی پھر آگئی جب دیکھ کر اتنے نشاں
قوم نے مجھ کو کہا کذاّب ہے اور بدشعار
ہے یقیں یہ آگ کچھ مدت تلک جاتی نہیں
ہاں مگر توبہ کریں با صد نیاز و انکسار
یہ نہیں اِک اتفاقی امر تا ہوتا علاج
ہے خدا کے حکم سے یہ سب تباہی اور تبار
وہ خدا جس نے بنایا آدمی اور دیں دیا
وہ نہیں راضی کہ بے دینی ہو ان کا کاروبار
بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا
بن ہے یہ دنیائے دوں طاعوں کرے اُس میں شکار
صید طاعوں مت بنو پورے بنو تم متقی
یہ جو ایماں ہے زباں کا کچھ نہیں آتا بکار
موت سے گر خود ہو بے ڈر کچھ کر و بچوں پہ رحم
امن کی رہ پر چلو بن کو کرو مت اختیار
بن کے رہنے والو تم ہرگز نہیں ہو آدمی
کوئی ہے روبہ کوئی خنزیر اور کوئی ہے مار
ان دلوں کو خود بدل دے اے مرے قادر خدا
تو تو ربّ العالمین ہے اور سب کا شہریار
تیرے آگے محو یا اثبات ناممکن نہیں
جوڑنا یا توڑنا یہ کام تیرے اختیار
ٹوٹے کاموں کو بنادے جب نگاہِ فضل ہو
پھر بناکر توڑ دے اک دم میں کردے تارتار
توہی بگڑی کو بناوے توڑدے جب بن چکا
تیرے بھیدوں کو نہ پاوے سو کرے کوئی بچار
جب کوئی دل ظلمت عصیاں میں ہووے مبتلا
تیرے بن روشن نہ ہووے گو چڑھے سورج ہزار
اس جہاں میں خواہش آزادگی بے سود ہے
اِک تری قید محبت ہے جو کردے رستگار
دل جو خالی ہو گداز عشق سے وہ دل ہے کیا
دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلبر یکتا قرار
فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود
پس کرو اس نفس کو زیرو زبر از بہرِ یار
تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وہ ناتمام
اس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار
تیر ےمنہ کی بھوک نے دل کو کیا زیروزبر
اے مرے فردوسِ اعلیٰ اب گرا مجھ پر ثمار
اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بچا
اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار
باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل
ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار
تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے
ایسے جینے سے تو بہتر مرکے ہو جانا غبار
گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت ہیچ ہے
فضل پر تیرے ہے سب جہدوعمل کا انحصار
جن پہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں
رہ میں حق کی قوتیں اُن کی چلیں بن کر قطار
چھٹ گئے شیطاں سے جوتھے تیری اُلفت کے اسیر
ہو ہووے تیرے لئے بے برگ وبر، پائی بہار
سب پیاسوں سے نکوتر تیرے منہ کی ہے پیاس
جس کا دل اس سے ہے بریاں پاگیا وہ آبشار
جس کو تیری دھن لگی آخر وہ تجھ کو جاملا
جس کو بے چینی ہے یہ وہ پاگیا آخر قرار
عاشقی کی ہے علامت گریہ ودامانِ دشت
کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہوا اشکبار
تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب
شرط رہ پر صبر ہے اور ترک نامِ اضطرار
میں تو تیرے حکم سے آیا مگر افسوس ہے
چل رہی وہ ہوا جو رخنہ اندازِ بہار
جیفہء دنیا پہ یکسر گر گئے دنیا کے لوگ
زندگی کیاخاک اُن کی جوکہ ہیں مردار خوار
دیں کو دے کر ہاتھ سے دنیا بھی آخر جاتی ہے
کوئی آسودہ نہیں بن عاشق وشیدائے یار
رنگ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر
ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار
سو چڑھے سورج نہیں بن رُوئے دلبر روشنی
یہ جہاں بے وصل دلبر ہے شب تاریک وتار
اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بے نظیر
جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار
اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کاکام
نقد پالیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار
کون ہے جس کے عمل ہوں پاک بے انوارِ عشق
کون کرتا ہے وفا بن اس کے جس کا دِل فگار
غیر ہوکر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض
کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار
کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل و شرب
کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار
عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر
عشق ہے جو سرجھکاوے زیر تیغ آب دار
پر ہزار افسوس دنیا کی طرف ہیں جھک گئے
وہ جو کہتے تھے کہ ہے یہ خانہ ء ناپائیدار
جس کو دیکھو آجکل وہ شوخیوں میں طاق ہے
آہ رحلت کر گئے وہ سب جو تھے تقویٰ شعار
منبروں پر اُنکے سارا گالیوں کا وعظ ہے
مجلسوں میں اُن کی ہردم سب وغیب کاروبار
جس طرف دیکھو یہی دُنیا ہی مقصد ہوگئی
ہر طرف اس کےلئے رغبت دلائیں بار بار
ایک کانٹا بھی اگر دیں کیلئے اُن کو لگے
چیخ کر اس سے وہ بھاگیں شیر سے جیسے حمار
ہر زماں شکوہ زباں پر ہے اگر ناکام ہیں
دیں کی کچھ پروا نہیں دنیا کے غم میں سوگوار
لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں
میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار
اے میرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو
نیک دن ہوگا وہی جب تجھ پر ہوویں ہم نثار
جس طرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دُور ہوں
ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار
نیک ظن کرنا طریق صالحان قوم ہے
لیک سو پردے میں ہوں اُن سے نہیں ہوں آشکار
بے خبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بدیا نیک مرد
میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرّہ وار
ابن مریم ہوں مگر اُترا نہیں میں چرخ سے
نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بےکار زار
ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام
کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نے دیار
تاج و تخت ہند قیصر کو مبارک ہو مدام
اُنکی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار
ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیاکریں
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار
ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر
گو بہت دنیا میں گذرے ہیں امیر و تاجدار
داغِ لغت ہے طلب کرنا زمیں کا عزّوجاہ
جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار
کام کیاعزت سے ہم کو شہرتوں سے کیاغرض
گروہ ذّلت سے ہو راضی اس پہ سو عزّت نثار
ہم اُسی کے ہوگئے ہیں جو ہمارا ہوگیا
چھوڑ کر دنیائے دوں کو ہم نے پایا وہ نگار
دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرشِ ربّ العالمیں
قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار
دوستی بھی ہے عجب جس سے ہوں آخر دو ستی
آملی اُلفت سے اُلفت ہوکے دو دل پر سوار
دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے
ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار
کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں
طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار
اس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے
کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائے گا زر بے شمار
تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں
تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار
ہے یہی اک آگ تاتم کو بچاوے آگ سے
ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار
اس سے خود آکر ملے گا تم سے وہ یارِ ازل
اس سے تم عرفان حق سے پہنو گے پھولوں کے ہار
وہ کتاب پاک و برتر جس کا فرقاں نام ہے
وہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار
جن کو ہے انکار اس سے سخت ناداں ہیں وہ لوگ
آدمی کیونکر کہیں جب اُن میں ہے حمقِ حماد
کیا یہی اسلام کا ہے دوسرے دینوں پہ فخر
کردیا قصوّں پہ سارا ختم دیں کا کاروبار
مغز فرقانِ مطہرکیا یہی ہے زہد خشک
کیا یہی چوہا ہے نکلا کھود کر یہ کوہسار
گریہی اسلام ہے بس ہوگئی اُمّت ہلاک
کس طرح رہ مل سکے جب دیں ہی ہوتاریک و تار
منہ کو اپنے کیوں بگاڑناامیدوں کی طرح
فیض کے در کھل رہے ہیں اپنے دامن کو پسار
کس طرح کے تم بشر ہو دیکھتے ہو صد نشاں
پھر وہی ضد و تعصب اور وہی کین و نقار
بات سب پوری ہوئی پر تم وہی ناقص رہے
باغ میں ہوکر بھی قسمت میں نہیں دیں کے ثمار
دیکھ لو وہ ساری باتیں کیسی پوری ہوگئیں
جن کا ہونا تھا بعید از عقل و فہم و افتکار
اُس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیاچیز تھا
جس زمانہ میں براہیں کادیا تھا اشتہار
پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا
کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی دوہر دیار
جانتا تھا کون کیا عزت تھی پبلک میں مجھے
کس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار
تھے رجوع خلق کے اسباب مال و علم و حکم
خاندانِ فقر بھی تھا باعثِ عزّو وقار
لیک ان چاروں سے میں محروم تھا او بے نصیب
ایک انساں تھا کہ خارج از حساب و از شمار
پھر رکھایا نام کافر ہوگیا مطعونِ خلق
کُفر کے فتووں نے مجھ کو کردیا بے اعتبار
اس پہ بھی میرے خدا نے یاد کرکے اپنا قول
مرجع عالم بنایا مجھ کو اور دیں کا مدار
سارے منصوبے جو تھے میری تباہی کیلئے
کر دیئے اُس نے تبہ جیسے کہ ہو گرد و غبار
سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
کوئی بتلائے نظیر اس کی اگر کرنا ہے وار
مکر انساں کو مٹا دیتا ہے انسانِ دِگر
پر خدا کا کام کب بگڑے کسی سے زینہار
مفتری ہوتا ہے آخر اس جہاں میں رُوسیہ
جلد تر ہوتا ہے برہم افتراء کا کاروبار
افتراء کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی
جو ہومثلِ مدّت فخر الرسل فخر الخیار
حسرتوں سے میرادل پر ہے کہ کیوں منکر ہو تم
یہ گھٹا اب جھوم جھوم آتی ہے دل پر بار بار
یہ عجب آنکھیں ہیں سورج بھی نظر آتا نہیں
کچھ نہیں چھوڑا حسد نے عقل اور سوچ اور بچار
قوم کی بدقسمتی اس سرکشی سے کھل گئی
پر وہی ہوتا ہے جو تقدیر سے پایا قرار
قوم میں ایسے بھی پاتا ہوں جو ہیں دُنیا کے کرم
مقصد اُنکی زیست کا ہے شہوت و خمر و قمار
مکر کے بل چل رہی ہے اُن کی گاڑی روز و شب
نفس و شیطان نے اُٹھایا ہے انہیں جیسے کہار
دیں کے کاموں میں تو اُن کے لڑکھڑاتے ہیں قدم
لیک دُنیا کے لئے ہیں نوجوان و ہوشیار
حلت و حرمت کی کچھ پروا نہیں باقی رہی
ٹھونس کر مُردار پٹیوں میں نہیں لیتے ڈکار
لافِ زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا
ہے زباں میں سب شرف اور نیچ دل جیسے چمار
اے عزیزو کب تلک چل سکتی ہے کاغذ کی ناؤ
ایک دن ہے غرق ہونا بادو چشم اشکبار
جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں
گلشن دلبرکی راہ ہے وادی ءغربت کے خار
اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا
ناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھالے سارا بار
تیری عظمت کے کرشمے دیکھتا ہوں ہر گھڑی
تیری قدرت دیکھ کر دیکھا جہاں کو مُردہ وار
کام دکھلائے جو تو نے میری نصرت کے لئے
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے ہر زماں وہ کاروبار
کس طرح تو نے سچائی کو مری ثابت کیا
میں ترے قرباں مری جاں تیرے کاموں پر نثار
ہے عجب اک خاصیت تیرے جمال و حسن میں
جس نے اک چمکار سے مجھ کو کیا دیوانہ وار
اے مرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم
تیری قدرت سے نہیں کچھ دُور گر پائیں سدہار
مجھ کو کافر کہتے ہیں میں بھی انہیں مومن کہوں
گر نہ ہو پرہیز کرنا جھوٹ سے دیں کا شعار
مجھ پہ اے واعظ نظر کی یار نے تجھ پر نہ کی
حیف اُس ایمان پہ جس سے کفر بہتر لاکھ بار
روضہء آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار
وہ خدا جس نے نبی کو تھا زر خالص دیا
زیور دیں کو بناتا ہے وہ اب مثلِ سنار
وہ دکھاتا ہے کہ دیں میں کچھ نہیں اکراہ وجبر
دیں تو خود کھینچے ہے دل مثلِ بت سیمیں عذار
پس یہی ہے رمز جو اُس نے کیا منع از جہاد
تا اٹھا وے دیں کی راہ سے جو اُٹھا تھا اِک غبار
تا دکھلاوے منکروں کو دیں کی ذاتی خوبیاں
جن سے ہوں شرمندہ جو اسلام پر کرتے ہیں وار
کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں
وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار
پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اِک معجزہ
معنیء رازِ نبوت ہے اسی سے آشکار
نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیاجائے عار
روشنی میں مہرتاباں کی بھلا کیا فرق ہو
گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگ بار
اے مرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو
وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مشکِ تتار
نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دمار
جس نے نفسِ دوں کو ہمت کرکے زیر پاکیا
چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم واسفند یار
گالیاں سنکر دُعا دوپا کے دکھ آرم دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤانکسار
تم نہ گھبراؤاگروہ گالیاں دیں ہرگھڑی
چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار
چپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں ستم
دم نہ مارو گروہ ماریں اور کردیں حالِ زار
دیکھ کر لوگوں کا جوش وغیظ مت کچھ غم کرو
شدتِ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار
افترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے
یہ خیال اللہ اکبر کس قدر ہے نابکار
خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر
جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار
پاک دل پر بدگمانی ہے یہ شقوت کا نشاں
اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار
جبکہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں
پھر مجھے کہتے ہیں کاذب دیکھ کر میرے ثمار
کیا تمہاری آنکھ سب کچھ دیکھکر اندھی ہوئی
کچھ تو اُس دن سے ڈرو یارو کہ ہے روزِ شمار
آنکھ رکھتے ہو ذرا سوچو کہ یہ کیا راز ہے
کس طرح ممکن کہ وہ قدوّس ہو کاذب کا یار
یہ کرم مجھ پر ہے کیوں کوئی تو اس میں بات ہے
بے سبب ہرگز نہیں یہ کاروبار کردگار
مجھ کو خود اُس نے دیا ہے چشمہ ءتوحید پاک
تا لگاوے از سر نو باغ دیں میں لالہ زار
دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اس یار نے
پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار
خیرگی سے بدگمانی اس قدر اچھی نہیں
اِن دنوں میں جبکہ ہے شورقیامت آشکار
ایک طوفان ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر
نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہورستگار
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
پشتی ء دیوار دیں اور مامنِ اسلام ہوں
نارسا ہے دست ّ دشمن تا بفرق ایں جدار
جاہلوں میں اس قدر کیوں بدگمانی بڑھ گئی
کچھ برے آئے ہیں دن یا پڑ گئی لعنت کی مار
کچھ تو سمجھیں بات کو یہ دل میں ارماں ہی رہا
واہ رے شیطاں عجب اُن کو کیا اپنا شکار
اے کہ ہر دم بدگمانی تیرا کاروبار ہے
دوسری قوت کہاں گم ہوگئی اے ہوشیار
میں اگر کاذب ہوں کذّابوں کی دیکھوں گا سزا
پر اگر صادق ہوں پھر کیا عذر ہے روزِ شمار
اس تعصب پر نظر کرنا کہ میں اسلام پر
ہوں فدا پھر بھی مجھے کہتے ہیں کافر باربار
میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار
ہائے وہ تقویٰ جو کہتے تھے کہاں مخفی ہوئی
ساربانِ نفس دوں نے کس طرف پھیری مہار
کام جو دکھلائے اُس خلاق نے میرے لئے
کیا وہ کرسکتا ہے جو ہو مفتری شیطاں کا یار
میں نے روتے روتے دامن کر دیا تر درد سے
اب تلک تم میں وہی خشکی رہی باحالِ زار
ہائے یہ کیا ہوگیا عقلوں پہ کیا پتھر پڑے
ہوگیا آنکھوں کے آگے اُن کے دن تاریک و تار
یا کسی مخفی گناہ سے شامتِ اعمال ہے
جس سے عقلیں ہوگئیں بیکار اور اک مردہ وار
گردنوں پر اُنکی ہے سب عام لوگوں کا گنہ
جن کے وعظوں سے جہاں کے آگیا دل میں غبار
ایسے کچھ سوئے کہ پھر جاگے نہیں ہیں اب تلک
ایسے کچھ بھولے کہ پھر نسیاں ہوا گردن کا ہار
نوعِ انساں میں بدی کا تخم بونا ظلم ہے
وہ بدی آتی ہے اُسپر جو ہو اُس کا کاشتکار
چھوڑ کر فرقاں کو آثارِ مخالف پر جمے
سر پہ مسلم اور بخاری کے دیا ناحق کا بار
جبکہ ہے امکان کذب و کج روی اخبار میں
پھر حماقت ہے کہ رکھیں سب انہیں پر انحصار
جبکہ ہم نے نور حق دیکھا ہے اپنی آنکھ سے
جبکہ خود وحی ءخدا نے دی خبر یہ بار بار
پھر یقیں کو چھوڑ کر ہم کیوں گمانوں پر چلیں
خود کہو رویت ہے بہتر یا نقولِ پرغبار
تفرقہ اسلام میں نقلوں کی کثرت سے ہوا
جس سے ظاہر ہے کہ راہ نقل ہے بے اعتبار
نقل کی تھی اک خطا کاری مسیحا کی حیات
جس سے دیں نصرانیت کا ہوگیا خدمت گذار
صد ہزاراں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر
ہوگئے شیطان کے چیلے گردن دیں پر سوار
موتِ عیسیٰؑ کی شہادت دی خدا نے صاف صاف
پھر احادیث مخالف رکھتی ہیں کیا اعتبار
گر گمال صحت کا ہو پھر قابل تاویل ہیں
کیاحدیثوں کے لئے فرقاں پہ کرسکتے ہو وار؟
وہ خدا جس نے نشانوں سے مجھے تمغہ دیا
اب بھی وہ تائید فرقاں کر رہا ہے بار بار
سر کو پیٹو! آسماں سے اب کوئی آتا نہیں
عمر دنیا سے بھی اب ہے آگیا ہفتم ہزار1
اس کے آتے آتے دیں کا ہوگیا قصہّ تمام
کیا وہ تب آئے گا جب دیکھے گا اس دیں کا مزار
کشتیء اسلام بے لطفِ خدا اب غرق ہے
اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار
مجھ کو ے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش
جس سے ہوجاؤں میں غم میں دیں کے اِک دیوانہ وار
وہ لگادے آگ میرے دل میں ملت کیلئے
شعلے پہنچیں جس کے ہردم آسماں تک بیشمار
اے خدا تیرے لئے ہر ذرّہ ہو میرا فدا
مجھ کو دکھلادے بہار دیں کہ میں ہوں اشکبار
خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز
کام تیرا کام ہے ہم ہوگئے اب بےقرار
اِک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف
نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار
ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے
بعد اس کے ظن غالب کو ہیں کرتے اختیار
پھر یہ نقلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں
تنگ ہو جائے مخالف پر مجال کار زار
باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار
مرہم عیسیٰ نے دی تھی محض عیسیٰ کو شفا
میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار
جھانکتے تھے نور کو وہ روزنِ دیوار سے
لیک جب در کھل گئے پھر ہوگئے شپر شعار
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار
پر ہوئے دیں کیلئے یہ لوگ مارِ آستیں
دشمنوں کو خوش کیا اور ہوگیا آزردہ یار
غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجاّل ہے
پاک کو ناپاک سمجھے ہوگئے مردار خوار
گو وہ کافر کہہ کے ہم سے دُور تر ہیں جاپڑے
اُن کے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار
ہم نے یہ مانا کہ اُن کے دل ہیں پتھر ہوگئے
پھر بھی پتھر سے نکل سکتی ہے دینداری کی نار
کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا امید
آیت لا تیئسوا رکھتی ہے دل کو استوار
پیشہ ہے رونا ہمارا پیش ربِّ ذوالمنن
یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار
جن میں آیا ہے مسیح وقت وہ منکر ہوئے
مرگئے تھے اس تمنا میں خواصِ ہر دیار
میں نہیں کہتا کہ میری جاں ہے سب سے پاک تر
میں نہیں کہتا کہ یہ میرے عمل کے ہیں ثمار
میں نہیں رکھتا تھا اس دعوے سے اِک ذرّہ خبر
کھول کر دیکھو براہیں کو کہ تا ہو اعتبار
گرکہے کوئی کہ یہ منصب تھا شایانِ قریش
وہ خدا سے پوچھ لے میرا نہیں یہ کاروبار
مجھ کو بس ہے وہ خدا عہدوں کی کچھ پروا نہیں
ہوسکے تو خود بنو مہدی بحکم کردگار
افترا لعنت ہے اور ہر مفتری ملعون ہے
پھر لعیں وہ بھی ہے جو صادق سے رکھتا ہے نقار
تشنہ بیٹھے ہو کنارِ جوئے شیریں حیف ہے
سرزمین ہند میں چلتی ہے نہر خوشگوار
2ان نشانوں کو ذرہ سوچو
کہ کس کے کام ہیں
کیا ضرورت ہے کہ دکھلاؤ غضب دیوانہ وار
مفت میں ملزم خداکے مت بنو اے منکرو
یہ خدا کا ہے نہ ہے یہ مفتری کا کاروبار
یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں
کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکاروں کا کار
ایسی سرعت سے یہ شہرت ناگہاں سالوں کے بعد
کیا نہیں ثابت یہ کرتی صدقِ قول کردگار
کچھ تو سوچو ہوش کرکے کیا یہ معمولی ہے بات
جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار
مٹ گئے حیلے تمہارے ہوگئی حجت تمام
اب کہو کس پر ہوئی اے منکرو لعنت کی مار
بندہء درگاہ ہوں اور بندگی سے کام ہے
کچھ نہیں ہے فتح سے مطلب نہ دل میں خوف ہار
مت کرو بک بک بہت ۔ اُس کی دلوں پر ہے نظر
دیکھتا ہے پاکیء دل کو نہ باتوں کی سنوار
کیسے پتھر پڑ گئے ہے ہے تمھاری عقل پر
دیں ہے منہ میں گرگ کے تم گرگ کے خود پاسدار
ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دیں احمدؐ پر تبر
کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار
کونسی آنکھیں جو اس کو دیکھ کر روتی نہیں
کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بیقرار
کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج
اِک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار
یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک
کیا یہ شمس الدین نہاں ہو جائے گا اب زیرغار
جنگ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا
دل گھٹا جاتا ہے یارب سخت ہے یہ کارزار
ہر نبیء وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر
کر گئے وہ سب دعائیں بادو چشم اشکبار
اے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ
وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار
جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان سے
میں غریب اور ہے مقابل پر حریف نامدار
دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر
اے مری جاں کی پنہ فوجِ ملائک کو اُتار
بستر راحت کہاں ان فکر کے ایاّم میں
غم سے ہردن ہو رہا ہے بد تراز شب ہائے تار
لشکر شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھر گیا
بات مشکل ہوگئی قدرت دکھا اے میرے یار
نسلِ انساں سے مدد اب مانگنا بیکار ہے
اب ہماری ہے تری درگاہ میں یاربّ پکار
کیوں کریں گے وہ مدد اُن کو مدد سے کیا غرض
ہم تو کافر ہوچکے اُن کی نظر میں بار بار
پر مجھے رہ رہ کے آتا ہے تعجب قوم سے
کیوں نہیں وہ دیکھتے جو ہو رہا ہے آشکار
شکر للہ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں
کچھ بنیں طاعون کی صورت کچھ زلازل کے بخار
اِک طرف طاعون خونی کھا رہا ہے ملک کو
ہو رہے ہیں صدہزاراں آدمی اس کا شکار
دوسرے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ
جس سے اِک محشر کا عالم تھا بصد شوروپکار
ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دیئے
جسقدر گھر گر گئے اُن کا کروں کیونکر شمار
یا تو وہ عالی مکاں تھے زینت و زیب جلوس
یا ہوئے اک ڈھیر اینٹوں کے پراز گردوغبار
حشر جس کو کہتے ہیں اِک دم میں برپا ہوگیا
ہر طرف میں مرگ کی آواز تھی اور اضطرار
دل گئے نیچے پہاڑوں کے کئی دیہات و شہر
مرگئے لاکھوں بشر اور ہوگئے دُنیا سے پار
اِس نشاں کو دیکھ کر پھر بھی نہیں ہیں نرم دل
پس خدا جانے کہ اب کس حشر کاہے انتظار
وہ جو کہلاتے تھے صوفی کیں میں سب سے بڑھ گئے
کیا یہی عادت تھی شیخ غزنوی کی یادگار
کہتے ہیں لوگوں کو” ہم بھی زبدۃ الابرار ہیں
پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحی رحماں کی پھوار”
پر وہی نافہم ملہم اوّل الاعداء ہوئے
آگیا چرخ بریں سے اُن کو تکفیروں کا تار
سب نشاں بیکار اُن کے بغض کے آگے ہوئے
ہوگا تیر تعصب ان کے دل میں وارپار
دیکھتے ہرگز نہیں قدرت اُس ستار کی
گو سناویں اُن کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار
صوفیا اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ
آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار
قدرتِ حق ہے کہ تم بھی میرے دشمن ہوگئے
یا محبت کے وہ دن تھے یا ہوا ایسا نقار
دھو دیئے دل سے وہ سارے صحبت دیریں کے رنگ
پھول بن کر ایک مدت تک ہوئے آخر کو خار
جس قدر نقدِ تعارف تھا وہ کھو بیٹھے تمام
آہ کیا یہ دل میں گذرا ہوں میں اس سے دلفگار
آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر
دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گردوغبار
اِک3 نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار
آئے گا قہر خدا سے خلق پر اِک انقلاب
اِک برہنہ سے نہ ہوگا یہ کہ تابندھے ازار
یک بیک اِک زلزلہ سے سخت جنبش4 کھائیں گے
کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار
اِک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیرو زبر
نالیاں خوں کی چلیں گی جیسےآب رود بار
رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یاسمن
صبح کردے گی انہیں مثلِ درختانِ چنار
ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس
بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار
ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی
راہ کو بھولیں گے ہوکر مست دبیخود راہوار
خون سے مردوں کے کوہستان کے آبِ رواں
سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شرابِ انجبار
مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس
زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحالِ زار
اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ رباّنی نشاں
آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار
ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہ ناشناس
اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دارومدار
وحی حق کی بات ہے ہوکر رہے گی بے خطا
کچھ دنوں کر صبر ہوکر متقی اور برد بار
یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف
قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار
1۔کتب سابقہ اوراحادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمردنیا کی حضرت آدم علیہ السلام
سے سات ہزاربرس تک ہے۔اسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ
إِنَّ يَوْماً عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا
تَعُدُّونَ
  یعنی خدا کا ایک دن تمھارےہزاربرس کے
برابر ہےاورخدا تعالےٰنے میرے دل پریہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانہ تک حضرت آدم علیہ السلام سے اسی قدرمدت بحساب قمری گذری تھی۔جو اس سورۃ
کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہےاور اس کی رو سے حضرت آدم علیہ
السلام سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دنیا کے خاتمہ پردلالت کرتاہےاور یہ
حساب جو سورۃ والعصرکے حروف کے اعداد نکالنے سے معلوم ہوتا ہے۔یہود اورنصاریٰ کے
حساب سے قریبا بتمام وکمال ملتا ہے۔صرف قمری اورشمسی حساب کوملحوظ رکھ لینا چاہیےاور
ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کاچھٹے ہزارمیں آنا ضروری ہےاورکئی
برس ہو گئےکہ چھٹا ہزا ر گذر گیا۔منہ
2۔اب تک کئی ہزار خدا تعالیٰ کے نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہوچکےہیں۔زمین نے بھی
میرے لئے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی اور دوستوں میں بھی ظاہر ہوئے اوردشمنوں
میں بھی جن کے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں اور ان نشانوں کو اگر تفصیلا ً جدا جدا
شمارکیا جائے تو قریباً وہ سارے نشان دس لاکھ تک پہنچتے ہیں۔
فَاالحَمدُ للہِ علیٰ ذٰلکَ۔
3۔تاریخ امروز 15اپریل1905ء
4۔ خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کابار بار لفظ ہےاورفرمایاکہ ایسا زلزلہ ہوگا
جو نمونہ ء قیامت ہوگابلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیے جس کی طرف سورۃ
إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا اشارہ کرتی ہے۔لیکن میں ابھی تک
اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا۔ممکن ہے کہ معمولی
زلزلہ نہ ہوبلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے جس کی نظیر کبھی
اس زمانے نے نہ دیکھی ہواور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے۔ہاں اگر ایسا فوق
العادت نشان ظاہرنہ ہواور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں
میں کاذب ٹھہروں گا ۔مگر میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ
نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔صرف اختلاف مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ
ہندو یاعیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر عذاب آسکتا ہےاور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ
کوئی میری بیعت میں داخل نہیں۔یہ سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں ۔ہاں جو شخص خواہ
کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھےاور فسق وفجور میں غرق ہواور
زانی،چور،ظالم اور ناحق کے طور پر بد اندیش ،بدزبان اور بد چلن ہو ،اس کو اس سے
ڈرنا چاہیےاور اگر توبہ کرے تو اس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور
نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔قطعی نہیں ہے۔منہ
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ97مطبوعہ 1908ء

اپنا تبصرہ بھیجیں