242۔ پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ360

242۔ پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے

پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے
مجرم ہوں جرمِ عشق کا، انعام دیجیے
یہ کیا کہ چھپ کے عشق کا الزام دیجیے
دینی ہے جو سزا بھی

249۔ عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ369۔370

249۔ عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر
بیٹھا ہوں

عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر
بیٹھا ہوں
رگ رگ میں لاکھوں نوکیلے نشتر لے کر
بیٹھا ہوں
شورِ قیامت برپا