163۔ بے سبب بھی، کسی بہانے بھی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ247

163۔ بے
سبب بھی، کسی بہانے بھی

بے
سبب بھی، کسی بہانے بھی
کبھی
مانے، کبھی نہ مانے بھی
حادثہ
تھا کہ شامتِ اعمال
تم
انھیں جان کر نہ جانے بھی
اپنے
وعدوں کو کر دیا پورا
صادقُ
الْوعد کبریا نے بھی
قدرتِ
ثانیہ کو دیکھ لیا
جاں
نثارانِ باوفا نے بھی
ساتھ
بھیجی سکون کی بارش
آسماں
سے مرے خدا نے بھی
ساتھ
توفیق صبر کی بھی دی
بخش
کر درد کے خزانے بھی
پھر
سے عہدِ قدیم دُہرایا
قافلے
نے بھی، رہنما نے بھی
بخشوا
لے گئے خطاؤں کو
یہ
خطاکار تھے سیانے بھی
واقعہ
بھی تھا اور حقیقت بھی
تم
نے کچھ گھڑ لیے فسانے بھی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں