71۔ سب مومن تھے، تُو کافر تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
123

71۔ سب مومن تھے، تُو کافر تھا

سب مومن تھے، تُو کافر تھا
یہ بھی اک طرفہ چکّر تھا
گھر کے اندر بھی اک گھر تھا
جس کے ڈَھے جانے کا ڈر تھا
تُو ہی تھا گھر کا دروازہ
تُو ہی کونے کا پتھر تھا
تُو ہی تھا آواز کا مہبط
تُو الفاظ کا نامہ بر تھا
ڈھونڈنے نکلے تھے ہم جس کو
نام پتا اس کا ازبر تھا
ہم نے پھینک دیا تھا باہر
عقل کا جو مَیلا بستر تھا
اندر صدیاں سوچ رہی تھیں
باہر لمحوں کا لشکر تھا
اپنے بھی تھے، بیگانے بھی
جو بھی تھا مجھ سے بہتر تھا
جیسا بھی تھا، جتنا بھی تھا
آخر میں تیرا مظہر تھا
اونچے محل مناروں والا
اپنے گھر میں بھی بے گھر تھا
شہرِ ذات کا رہنے والا
اپنی ذات سے ہم بستر تھا
لفظوں کے لب سوکھ گئے تھے
کاغذ کا سینہ بنجر تھا
دشتِ نجف تھا اور سنّاٹا
اک لاشہ تھا اور بے سر تھا
اتنا ہنسنے والے کو جب
چھو کر دیکھا تو پتھّر تھا
رات ملا تھا جو مضطرؔ سے
نام تو اس کا بھی مضطرؔ تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں