59۔ چلی مشین چلی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ95۔96

59۔ چلی مشین چلی

چلی مشین چلی
ٹوٹ گیا آشا کا تاگا
جی بھر آیا، سینہ جاگا
رات گئی، اب اُڑ جا کاگا
گھر گھر، گلی گلی
شیام نگر کے راگ رنگ میں
نیل، چناب، جمن گنگ میں
جوڑ جوڑ میں، انگ انگ میں
غم کی آگ جلی
دل میں آگ، نظر میں شعلے
اُٹھ پردیسی! دم بھر رو لے
لوگ ہنسیں، یہ منہ سے نہ بولے
انگ بھبھوت ملی
ظلم اٹھا دے، رخ نہیں موڑے
دُکھڑوں کے دن رہ گئے تھوڑے
رام لنڈھاوے کُپّا، جوڑے
بندہ پلی پلی
ظلم ترا مرے آڑے آیا
پتھّر سے پتھّر ٹکرایا
رووے شہروں میں ہمسایہ
بن میں کلی کلی
لفظوں کی چھائی اندھیاری
پاس بلا لو کرشن مراری
شور کرے بپتا کی ماری
پہنچو مہابلی
بِن تیرے اب کون سہارا
اپنوں نے اپنوں کو مارا
مولا! یہ جیتے، مَیں ہارا
جیت سے ہار بھلی
تنہائی سے مت گھبراؤ
کوچۂ جاناں سے ہو آؤ
اچھلو، کُودو، ناچو، گاؤ
بولو علی علی٭
شاہوں کی سرکار تمھی ہو
بے یاروں کے یار تمھی ہو
کشتی تم، پتوار تمھی ہو
تم مضطرؔ کے ولی
۱۹۵۳ء
٭۔۔۔۔’’علی‘‘  اللّٰہ تعالیٰ کا نام ہے۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں