14۔ ہجومِ رنگ سے گھبرا گئی ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
24

14۔
ہجومِ رنگ سے گھبرا گئی ہے

ہجومِ رنگ سے گھبرا گئی ہے
صبا گلشن سے باہر آ گئی ہے
بھنور سے پڑ گئے خاموشیوں میں
صداؤں سے صدا ٹکرا گئی ہے
غمِ دوراں کے دھندلے غمکدوں میں
تری تصویر بھی دھندلا گئی ہے
ستاروں کے کنارے گِھس گئے ہیں
اُجالوں کی نظر پتھرا گئی ہے
گوالے رک گئے ہیں راستوں میں
یہ کس سے روٹھ کر رادھا گئی ہے
غریبِ شہر نے کس کو پکارا
بڑی گہری خموشی چھا گئی ہے
تمنّا کی پری سپنے میں مضطرؔ!
سہاروں کی جبیں سہلا گئی ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں