15۔ وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
25۔26

15۔ وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے

وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے
زمین بولتی ہے، آسمان بولتا ہے
رِہائی ملتی ہے آواز کو اسیری سے
ہزار سال کے بعد آسمان بولتا ہے
صدا اسی کی ہے لیکن ازل کے گنبد میں
کبھی مکان، کبھی لامکان بولتا ہے
وہ ایسے بول رہا ہے وجود میں میرے
کہ جیسے مالکِ کون و مکان بولتا ہے
دل و نگاہ کے عیسیٰ ہیں گوش بر آواز
سرِ صلیب کوئی ہم زبان بولتا ہے
خموش بیٹھے ہیں دونوں اُجاڑ کمرے میں
نہ میزبان نہ کچھ میہمان بولتا ہے
جھگڑ رہے ہیں ہوا سے کواڑ کمروں کے
مکین جاگ رہے ہیں، مکان بولتا ہے
کوئی تو ہے جو کھڑا ہے صدا کے پہلو
میں
مَیں بولتا ہوں تو یہ درمیان بولتا
ہے
عدو سے کرتا ہوں اب گفتگو اشاروں میں
مَیں اس کی اور وہ میری زبان بولتا
ہے
تمام شہر ہے قائل تری صداقت کا
یہ اور بات ہے اک بدگمان بولتا ہے
سفر پہ جب بھی نکلتا ہے باوضو ہو کر
نماز پڑھتا ہے لمحہ، اذان بولتا ہے
یہ کون گزرا ہے صحرا پہ منکشف ہو کر
قدم قدم پہ قدم کا نشان بولتا ہے
ازل کی دھوپ کو سر پر سجا تو لوں مضطرؔ!
مگر وجود کا یہ سائبان بولتا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں