415۔ رقصِ شیطاں ہوا تھا پہلے بھی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ609

415۔ رقصِ شیطاں ہوا تھا پہلے بھی

 

رقصِ شیطاں ہوا تھا پہلے بھی

آسماں پر خدا تھا پہلے بھی

 

میں اسے جانتا تھا پہلے بھی

وہ مِرا آشنا تھا پہلے بھی

 

تم نے احساں کیا تھا پہلے بھی

میرا گھر جل گیا تھا پہلے بھی

 

اس کے تیور ہیں اب کے اور ہی کچھ

وہ اگرچہ خفا تھا پہلے بھی

 

مجھ سے اب بھی انہیں شکایت ہے

مجھ کو ان سے گلہ تھا پہلے بھی

 

اب کے اس کی ہنسی ہے اور ہی کچھ

پھول یوں تو ہنسا تھا پہلے بھی

 

ہم فقیروں کو، ہم اسیروں کو

اُس نے اپنا لیا تھا پہلے بھی

 

اب لہو میں نہا کے نکلا ہے

اشک یوں تو گرا تھا پہلے بھی

 

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں