14۔ شائد کسی خواب میں کہا کچھ

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ39۔41

14۔
شائد کسی خواب میں کہا کچھ

شائد کسی خواب میں کہا کچھ
کیا میں نے جواب میں کہا کچھ
کیا منزلِ بے وفائی تھی وہ
کم تھا جو جواب میں کہا کچھ
جب صحبتِ غیر یاد آئی
پھر تجھ سے عذاب میں کہا کچھ
یعنی وہ سفر سراب کا تھا
اور دل نے سراب میں کہا کچھ
دنیا کو دکھا سکے گامنہ کیا
گر میں نے جواب میں کہا کچھ
وہ حالِ خراب پر کھلے گا
جو حالِ خراب میں کھلا کچھ
مفہوم ہی کچھ اور لوگ سمجھے
اور اس نے کتاب میں کہا کچھ
کچھ دور تھا ہاتھ ابھی ہوا کا
خوشبو نے گلاب میں کہا کچھ
اس میں بھی حیا کا رنگ بولا
میں نے بھی حجاب میں کہا کچھ
جب آنکھ وہ میکدہ سی دیکھی
نشے نے شراب میں کہا کچھ
قطرے نےسرِآب کچھ کہا تھا
موجِ تہِ آب میں کہا کچھ
معلوم نہیں کون تھا وہ جس نے
گوشِ گلِ خواب میں کہا کچھ
1994
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں