90۔ گیت

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ125۔126

90۔ گیت

گیت
ہم راہی ایسی راہوں کے جن کی کوئی منزل
ہی نہیں
یہ جیون پیاس کا صحرا ہےاور سر پہ کوئی
بادل ہی نہیں
جانے کے لئے ہر رُت آئی ، رہنے کو ہے
بس یہ تنہائی
اِک عمر کا روگ نہ ہو جائے یہ پل دو
پل کی سچّائی
سدا یہ آنکھیں سپنے دیکھیں  آنے والے زمانوں کے
ہم راہی ایسی راہوں کے
جو چہرہ آنکھوں میں آئے سو خواب نئے
دکھلا جائے
جو ساتھ چلےوہ ملے نہیں جو بچھڑ گئے  وہ یاد آئے
منزل منزل ڈھونڈ رہے ہیں خواب اپنے
ارمانوں کے
ہم راہی ایسی راہوں کے جن کی کوئی منزل
ہی نہیں
یہ جیون پیاس کا صحرا ہے اور سر پر
کوئی بادل ہی نہیں
1976ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں