136۔ محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ69۔70

136۔  محبتوں
کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں

محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں
جو دل گلاب ہیں زخموں سے بھر نہ جائیں
کہیں
ابھی تو وعدہ و پیماں ہیں  اور یہ حال اپنا
وصال ہو تو خوشی سے ہی مر نہ جائیں
کہیں
یہ رنگ چہرے کے اور خواب اپنی آنکھوں
کے
ہوا چلے کوئی ایسی بکھر نہ جائیں کہیں
جھلک رہا ہے جن آنکھوں سے اب وجود مرا
آنکھیں ہائے یہ آنکھیں مکر نہ جائیں
کہیں
پکارتی ہی  نہ رہ جائے 
یہ زمیں پیاسی
برسنے والےیہ بادل گزر نہ جائیں کہیں
نڈھال اہل طرب ہیں کہ اہل گلشن کے
بجھے بجھے سے یہ چہرےسنور نہ جائیں
کہیں
فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر
نکل کے گھر سے  اب اہل نظر نہ جائیں کہیں
1970ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں