19۔ زیرِ لب کہیے، برملا کہیے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ31

19۔ زیرِ لب کہیے، برملا کہیے

زیرِ لب کہیے، برملا کہیے
کہیے کہیے مجھے برا کہیے
اب تقاضا ہے مصلحت کا یہی
واعظِ شہر کو خدا کہیے
دیکھیے مت قریب سے مجھ کو
دُور سے تکیے، پارسا کہیے
میرا اپنا کوئی وجود نہیں
عکس مجھ کو وجود کا کہیے
لفظ لڑنے کو اب بھی ہیں تیار
اس سے کیا ہو گا فائدہ، کہیے
وہ جو آ کر چلا گیا لمحہ
اس کو صدیوں کا خوں بہا کہیے
عکس بن کر اُتر رہا ہوں مَیں
میری آہٹ کو زلزلہ کہیے
قاتلِ شہر میرے قتل کے بعد
مجھ کو اپنا کہے تو کیا کہیے
بر سرِ دار بھی خموش رہا
اس کو مضطرؔ کا حوصلہ کہیے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں