25۔ اپنے اندر کی بھی سیاحت کر

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ38

25۔ اپنے
اندر کی بھی سیاحت کر

اپنے اندر کی بھی سیاحت کر
کبھی اپنی طرف بھی ہجرت کر
اپنے اندر کے آدمی سے مِل
اس ملاقات کی بھی صورت کر
بوریت کچھ تو دُور ہو جائے
میرے دشمن! کوئی شرارت کر
دل میں محسوس کر اسے، لیکن
دیکھنے کی کبھی نہ جرأت کر
منطقُ الطَّیر بخشنے والے!
پرِ پرواز بھی عنایت کر
بول اے معترض! خموش ہے کیوں
کوئی خود ساختہ روایت کر
ہر کسی کو نظر نہ آیا کرے
اپنی تصویر کو نصیحت کر
موت کے بعد بھی نہ بھول ہمیں
قبر میں بھی نہ استراحت کر
اپنی صورت سے باخبر بھی رہ
آئنہ دیکھنے کی عادت کر
تیرا مسلک اگر محبت ہے
اپنے دشمن سے بھی محبت کر
عشق میں مصلحت نہیں ہوتی
عشق کر اور بے ضرورت کر
جا رہا ہوں سفیرِ دل بن کر
مجھ کو عزّت کے ساتھ رخصت کر
اشک در اشک روح کوبھی کھنگال
اُٹھ کے راتوں کو غسلِ صحّت کر
بخش دے تو مجھے بغیرِ حساب
مَیں نہیں کہہ رہا رعایت کر
عقل کے ہاتھوں تنگ ہے مضطرؔ
دلِ ناداں! کوئی حماقت کر
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں