54۔ قصیدہ لامیہ

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ85۔88

54۔ قصیدہ لامیہ

اے احتیاط کے  ُپتلے! ابھی نہ بھیس بدل
ابھی اُجالا ہے باہر، ابھی نہ گھر سے
نکل
وہ التفات کے برسے ہیں رات بھر بادل
زمین جاگ اٹھی، سبز ہو گئے جنگل
ستارے اس میں فروکش ہیں، چاند رہتا
ہے
بھری ہوئی ہے اُجالوں سے جھیل اک شیتل
یہ اشک آنکھ کا گہنا ہیں، روح کی زینت
رکیں تو نارِ  ّجہنم، بہیں تو گنگاجل
کبھی نہ شعر کے فنکار کی ہوئی تسکیں
بنا بنا کے گرائے غزل کے تاج محل
تمام خار حسیں ہیں، تمام گل محبوب
نہیں ہے فرق کوئی طور ہو کہ  ِبندھیا 
َچل
اس التزام سے ذکرِ جمالِ یار ہؤا
تمام شہر کے بیمار ہو گئے پاگل
دریچے کھول کے در آئے آہٹوں کے ہجوم
مکین کانپ رہے ہیں، مکاں ہیں متزلزل
اداس کب سے کھڑے ہیں صدا کے سنگم پر
یہ انتظار کے صحرا، یہ ہجرِ یار کے
تھل
ابھی نہ چہرہ دکھائیں، یہ راستوں سے
کہو
غبارِ کوچۂ جاناں کا اوڑھ لیں آنچل
بھڑک کے شعلہ نہ بن جائیں داغ سینے
کے
خیالِ زلفِ پریشاں نہ اور پنکھا جھل
کبھی جو وقت کے سینے کو چیر کر دیکھا
نہ کوئی شامِ ابد تھی، نہ کوئی صبحِ
ازل
اسی کا عکس ہیں دیروز و فردا و امروز
وہ خود زمانہ ہے، اس کے لیے نہ آج نہ
کل
وہ بزمِ کُن کا ہے مالک بھی اور خالق
بھی
اسی کے اذن سے پھوٹی وجود کی کونپل
مَیں اس کی بزمِ تحیّر میں بار بار
گیا
کبھی بدن کے سہارے، کبھی نگاہ کے بل
مَیں ایک جست میں اس کے حضور جا پہنچا
ہزار راہ میں حائل تھی عقل کی دلدل
وہ مشرقی ہے نہ وہ مغربی مگر بخدا
وہی ہے مشرق و مغرب کی مشکلات کا حل
بنامِ شامِ غریباں بفیضِ کرب و بلا
اجڑ اجڑ گئے رخسار، دُھل گئے کاجل
یہ کس کے سامنے دشتِ نجف ہے شرمندہ
شہید ملنے گئے ہیں کسے سرِ مقتل
نقاب رخ سے اٹھائے، مجال کس کی ہے
خرد ہے سربگریبان، عشق خوار و خجل
یہی تو ہے کہ جو قوسین کا ہے وترِ جمیل
سجا ہؤا ہے جو کاندھے پہ نور کا کمبل
قریب رہ کے بھی محفل میں بار پا نہ
سکا
مرے حبیب! مقدر کے فیصلے ہیں اٹل
یہ داغ کیسے ہیں دامن پہ خون کس کا
ہے
یہ کس کے قتل سے کس کا ضمیر ہے بوجھل
پھرا کریں ہیں بگولے تلاش میں کس کی
رہا کریں ہیں یہ کس کے فراق میں بے
کل
یہ کس کا ذکر ہؤا آرزو کے آنگن میں
یہ کس کی زلف کی خوشبو میں بس گئی ہے
غزل
بلا رہا ہے نہ جانے کسے اشاروں سے
نظر سے دور لبِ دل حسین اک چنچل
سکھی ری کرشن مراری دوارکا سے چلے
چناب پار سرِ شام بس گئے گو کل
جہاں پہ بیٹھ گئے شہر ہو گئے آباد
جہاں رکے وہیں جنگل میں ہو گیا منگل
نگر میں آئی ہے پھر بن سے بنسری کی
صدا
لطیف اس کے ہیں سُرتال، اس کی لَے کومل
قدم قدم پہ فروزاں ہیں شمعیں کافوری
سلگ رہے ہیں محبت کےعود اور صندل
لرز رہی ہیں ستاروں کی سرخ دیواریں
یہ آفتاب مرے سانس سے نہ جائیں پگھل
قفس کو آگ نہ لگ جائے میری آہوں سے
مری پکار سے سینوں میں دل نہ جائیں
دہل
ہوس کی تند ہواؤں سے بجھ نہ جائیں کہیں
سلگ رہے ہیں جوپلکوں پہ آنسوؤں کے کنول
ابھی تو خوابِ تحیّر سے جاگنا ہے مجھے
شتاب اتنا تو اے آفتابِ عمر! نہ ڈھل
نہ زادِ راہ ہے کوئی، نہ سہل ہے رستہ
سفر طویل ہے اے عمر! میرے ساتھ نہ چل
نہ چھیڑ خاک نشینوں کو اس قدر مضطرؔ!
چھلک نہ جائے فقیروں کے صبر کی چھاگل
۱۹۶۲ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں