77۔ ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ133۔134

77۔ ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا

ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا
وہی سکون تھا دل کا، وہی سہارا تھا
گلِ مراد کھلا تھا ہزار سال کے بعد
چمن کا ورنہ روایات پر گزارہ تھا
تمام عمر کٹی اور فیصلہ نہ ہؤا
کہ جرم عشق کا اس کا تھا یا ہمارا تھا
جو ایک بار اسے دیکھا تو دیکھتے ہی
رہے
کوئی علاج تھا اس کا نہ کوئی چارہ تھا
شبِ وصال میں فرقت کے فاصلے نہ گئے
کہ وصلِ یار بھی فرقت کا استعارہ تھا
یہ کس کا عکس اتر آیا تھا رگِ جاں میں
کہ لاکھ پردوں میں چھپ کر بھی آشکارا
تھا
میں اپنی ذات سے آگے سفر پہ کیا جاتا
کہ اس جزیرے کے چاروں طرف کنارہ تھا
میں عہدِ عشق کا منصور تو نہ تھا لیکن
کسی نے سنگ، کسی نے تو پھول مارا تھا
میں اشک اشک ستارے تراشتا کیسے
پگھل گیا تھا وہ منظر جو سنگِ خارا
تھا
تم آسماں سے بچھڑ کر اُداس کیا ہوتے
زمین زہر تھی اور زہر بھی گوارا تھا
یہ اور بات ہے منزل جدا جدا تھی مگر
جو راستہ تھا ہمارا وہی تمھارا تھا
شبِ فراق کو آباد کر گیا مضطرؔ!
وہ اشک جو کبھی صورت، کبھی ستارہ تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں