89۔ تم کو بھی کوئی بددعا لگتی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ153

89۔ تم کو بھی کوئی بددعا لگتی

تم کو بھی کوئی بددعا لگتی
تم بھی کہتے کبھی خدا لگتی
حسرتوں کا شمار بھی ہوتا
یہ نمائش بھی اے خدا! لگتی
بات کرتے اگر حوالے سے
ہر نئی بات آشنا لگتی
کس قدر حبس ہے سرِ مقتل!
اَبر ُکھلتا تو کچھ ہوا لگتی
ناخدا! اس میں تیرا کیا جاتا
میری کشتی کنارے جا لگتی
دل کی دِلّی اُجڑ گئی مضطرؔ!
پھول والوں کی کیا صدا لگتی
١٩٨٣ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں