115۔ وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے رہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ182

115۔ وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے
رہے

وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے
رہے
یہ اور بات ہے سونے کے سانپ ڈس کے رہے
مَیں جان دے کے بھی امسال مطمئن نہ
ہؤا
سرِ صلیب بھی چرچے مری ہوس کے رہے
فقیہِ شہر نے قدغن لگا دی موسم پر
جمالِ یار کے بادل مگر برس کے رہے
ہزار بے وطنی تھی، ہزار بے بدنی
گلِ مراد کی خوشبو میں شہر بس کے رہے
نہ گل رہا ہے، نہ گل چیں، نہ رسمِ گل
چینی
رہی تو لمس کی لذّت، نظر کے چسکے رہے
ہؤا نہ ہو گا کبھی یہ ستم زمانے میں
کہ گوجرے میں رہے یار، آپ ڈسکے رہے
بدن سے مل کے بدن اور ہو گئے تنہا
جو فاصلے تھے وہی فاصلے ہوس کے رہے
مجھے جلا دے، مری آہ کو اسیر کرے
اسے کہو کہ نہ درپے مرے قفس کے رہے
کچھ ایسے بدلا ہے آئینِ گلستاں مضطرؔ!
کہ تابِ برق نہ اب حوصلے قفس کے رہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں