159۔ روح زخمی، جسم گھائل ہو گئے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ241۔242

159۔ روح
زخمی، جسم گھائل ہو گئے

روح زخمی، جسم گھائل ہو گئے
ہر طرف پیدا مسائل ہو گئے
آئنہ دیکھا تو قائل ہو گئے
اپنے ہاتھوں آپ گھائل ہو گئے
جس قدر ٹکڑے تھے میرے جسم کے
میرے ہی رستے میں حائل ہو گئے
ہم نے مانگا ہے انھیں اللّٰہ سے
ان کی خاطر ہم بھی سائل ہو گئے
میرے حصّے کے تھے جو رنج و الم
حد سے گزرے تو وسائل ہو گئے
جب کبھی ٹوٹے ہوئے بازو اُٹھے
ان کی گردن میں حمائل ہو گئے
آتے آتے اعتبار آ ہی گیا
ہوتے ہوتے وہ بھی قائل ہو گئے
اُنگلیاں بھی اب ڈبو لو خون میں
خونِ ناحق پر تو مائل ہو گئے
فیصلہ اب عقل کے ہاتھوں میں ہے
دل کی جانب سے دلائل ہو گئے
اب تو مضطرؔ سے کوئی جھگڑا نہیں
جو گلے شکوے تھے زائل ہو گئے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں