216۔ جلنے کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ 319-320

216۔ جلنے کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات

جلنے
کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات
پتھر
تھا، موم بن کے پگھلتا تمام رات
منظور
تھا اگر اُسے دھرتی کا احترام
پاؤں
تلے نہ اس کو کچلتا تمام رات
ہوتا
اگر نہ چاند نکلنے کا انتظار
باہر
کوئی نہ گھر سے نکلتا تمام رات
ہوتی
اگر نہ یاد کی کھڑکی کھلی ہوئی
اُمّید
کا چراغ نہ جلتا تمام رات
در
کھٹکھٹاتا رہتا وہ اپنے مکان کا
خود
سے ملے بغیر نہ ٹلتا تمام رات
منزل
پہ جا پہنچتا مسافر ضمیر کا
گرتا
تمام رات، سنبھلتا تمام رات
اتنا
بھی کیا کہ اپنی ہی آہٹ سے ڈر گیا
ڈھلنے
لگا تھا اشک تو ڈھلتا تمام رات
آواز
اور سرحدِ آواز سے پرے
صوت
و صدا کا سلسلہ چلتا تمام رات
پیاسے
کو چاہیے تھا کہ پیاسوں کے درمیاں
چھپ
کر نہ آنسوؤں کو نگلتا تمام رات
ق
اس
کو اگر جلاتی نہ یہ آگ ہجر کی
پہلو
نہ کرب سے مَیں بدلتا تمام رات
نظریں
اُٹھا کے دیکھ نہ سکتا اسے مگر
دیکھے
بِنا بھی دل نہ بہلتا تمام رات
مضطرؔ
بھی اس کے سائے میں سو جاتا چین سے
فرقت
کا پیڑ پھولتا پھلتا تمام رات
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں