224۔ تیر جب اس کمان سے نکلا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ333

224۔ تیر جب اس کمان سے نکلا

تیر جب اس کمان سے نکلا
ایک شعلہ چٹان سے نکلا
اپنی آواز لے گیا ہمراہ
جب پرندہ مکان سے نکلا
کوئی اپنا رہا نہ بے گانہ
فاصلہ درمیان سے نکلا
راستہ دے دیا سمندر نے
اشک اس آن بان سے نکلا
مٹ چکا تھا نشان جنگل کا
جب شکاری مچان سے نکلا
شہرِ مسحور میں سرِ منبر
مولوی مرتبان سے نکلا
اب زمیں سے لپٹتا پھرتا ہے
سایہ کیوں سائبان سے نکلا
بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی
کام کب ترجمان سے نکلا
بے سبب تو خفا نہیں دُنیا
کچھ تو میری زَبان سے نکلا
خواب ہے یا خیال ہے مضطرؔ!
آن کر پھر نہ دھیان سے نکلا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں