223۔ واویلا کرتا ہؤا راون آیا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ331-332

223۔ واویلا کرتا ہؤا راون آیا ہے

واویلا کرتا ہؤا راون آیا ہے
سیتا کو لینے کیوں لچھمن آیا ہے
ارجن کو بلواؤ کرو کھشیتر میں
گیتا کے اپدیش کو بھگون آیا ہے
دروپدیوں کی عزّت لوٹ کے جوئے میں
کس منہ سے واپس دریودھن آیا ہے
جنسِ وفا منگوائی تھی مجبوروں نے
شہر سے واپس خالی برتن آیا ہے
آنکھیں فرش کرو، چہرے دہلیز کرو
ساجن سے ملنے کو ساجن آیا ہے
چہرے جھانک رہے ہیں روشن دانوں سے
لگتا ہے کوئی روزن روزن آیا ہے
موسم بھی مدہوش ہے فرطِ لذّت سے
دھرتی پر بھی ٹوٹ کے جوبن آیا ہے
ساز کا قبضہ ہے آواز کی لہروں پر
سوز کو بھی چپ رہنے کا فن آیا ہے
خالی ہاتھ کھڑے ہیں لفظ قطاروں میں
لگتا ہے آواز کا مدفن آیا ہے
حضرتِ یوسف سے کہہ دو محتاط رہیں
شہر میں کہتے ہیں اک نِردھن آیا ہے
گندم کے مقروض کھڑے ہیں ساحل پر
دریا پار سے ایک مہاجن آیا ہے
کچھ کرلے سیلاب کا بندوبست میاں!
ہاڑ گیا اور سر پر ساون آیا ہے
آنکھ اٹھا کر دیکھ ستارہ قسمت کا
نیند کے ماتے! جاگ، برہمن آیا ہے
مضطرؔ کی خاموشی پر حیران نہ ہو
اس نے کیا ہے جو اس سے بن آیا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں