238۔ زندانِ ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ355۔356

238۔ زندانِ ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا

زندانِ ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا
وہ حبس تھا کہ سانس بھی لینا عذاب تھا
ہم جی رہے تھے تیری ہی رحمت کی گود
میں
سایہ فگن ترے ہی کرم کا سحاب تھا
تیری عنایتوں کی نہ تھی کوئی انتہا
میری خطاؤں کا بھی نہ کوئی حساب تھا
تیرے ہی نور سے تھیں منوّر صداقتیں
تُو ہی تھا ماہتاب، تُو ہی آفتاب تھا
تھی خوشبوؤں میں بھی تری خوشبو ہی دلنواز
پھولوں میں پھول تیرے ہی رُخ کا گلاب
تھا
نیکی ترے بغیر گناہِ عظیم تھی
لمحہ جو تیری یاد میں گزرا ثواب تھا
تُو ہی تھا وہ سوال جو اکثر کِیا گیا
تُو ہی تھا وہ جواب کہ جو لاجواب تھا
اے حسنِ تام! علم بھی تُو تھا، عمل
بھی تُو
لوح و قلم بھی تُو ہی تھا، تُو ہی کتاب
تھا
صبحِ ازل مشیتِ یزداں تھی دیدنی
جس صبح بزمِ کُن میں ترا انتخاب تھا
اوّل بھی تُو، اخیر بھی تُو، تُو ہی
درمیاں
تُو تھا پسِ نقاب، تُو پیشِ نقاب تھا
کام آ گئی غریب کے، مِدحت حضورؐ کی
مضطرؔ کا آج کہتے ہیں یوم الحساب تھا
١٩٦٧
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں