257۔ تیرے سوا تو کوئی مرا راہبر نہ تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ379۔380

257۔ تیرے
سوا تو کوئی مرا راہبر نہ تھا

تیرے سوا تو کوئی مرا راہبر نہ تھا
یہ اَور بات ہے کہ ترا ہم سفر نہ تھا
سب بے قرار تھے ترے دیدار کے لیے
وہ کون سا حسین تھا جو بام پر نہ تھا
افتاد آ پڑی تھی کچھ ایسی مریض پر
لب پر دعا تھی اور دعا میں اثر نہ تھا
مشکل کے بعد مشکلیں آتی چلی گئیں
یہ امتحاں کا دور بہت مختصر نہ تھا
تُو نے کہا تو آنسوؤں کو بولنا پڑا
ورنہ کوئی صدا نہ تھی جس میں بھنور
نہ تھا
صبحِ ازل تھی لمس کی لذّت پہ خندہ زن
جنت میں دور دور کوئی بھی شجر نہ تھا
اس کو پتا تھا سارے سیاہ و سفید کا
بے نور تو ضرور تھا وہ بے خبر نہ تھا
لیٹے ہوئے تھے ریتلے سائے زمین پر
سوکھے سمندروں سے کسی کو مفر نہ تھا
ہم نے لحد میں چین سے بستر بچھا لیے
مٹی میں کوئی معرکۂ خیر و شر نہ تھا
اس مطلق العنان کا نعرہ بھی تھا غلط
جمہور کا یہ فیصلہ بھی معتبر نہ تھا
تُو بھی تو آ رہا تھا نظر اس کی اوٹ
میں
مضطرؔ کا انحصار فقط چاند پر نہ تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں