347۔ کہیں گرنا، کہیں سنبھلنا تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ512

347۔ کہیں گرنا، کہیں سنبھلنا تھا

کہیں گرنا، کہیں سنبھلنا تھا
کام اپنا مدام چلنا تھا
یہ رفاقت تو عمر بھر کی تھی
عمر بھر ساتھ ساتھ چلنا تھا
ان کے کاٹے کا کچھ علاج نہیں
آنسوؤں کو نہیں نگلنا تھا
اپنے ہمراہ کس طرح چلتے
تیرے ہمراہ بھی تو چلنا تھا
لفظ یخ بستہ ہو گئے تھے اگر
تم کو لہجہ نہیں بدلنا تھا
اشک سے بھی نہیں گلہ کوئی
یہ ستارہ کبھی تو ڈھلنا تھا
پھول تھا وہ تو اس کو پت جھڑ میں
گھر سے باہر نہیں نکلنا تھا
یہ جو تازہ ہوا کا جھونکا تھا
اس کو طوفاں کا رُخ بدلنا تھا
بانجھ تھا وہ درخت نفرت کا
پھولنا تھا اسے نہ پھلنا تھا
ہم بدلتے تو کوئی بات بھی تھی
تم کو مضطرؔ! نہیں بدلنا تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں