358۔ نذرِ غالبؔ بصد ادب واحترام

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ525۔526

358۔ نذرِ
غالبؔ بصد ادب واحترام

وہ جلال اور وہ جمال کہاں
ہم کہاں، عالمِ مثال کہاں
نشّۂ فرقت و وصال کہاں
وہ خوشی اور وہ ملال کہاں
تنگ دستی میں، فاقہ مستی میں
عشرتِ دستِ بے سوال کہاں
رُخِ جاناں کو دیکھنے کے لیے
چشمِ شائستۂ جمال کہاں
ایک لمحہ بسر نہیں ہوتا
عزمِ تسخیرِ ماہ و سال کہاں
اک نظر دیکھنے کی تاب نہیں
جرأتِ لمس کا سوال کہاں
بات کرتے زبان کٹتی ہے
حرفِ مطلب کا احتمال کہاں
آئنہ آرزو کا ٹوٹ گیا
خواہشِ دید کی مجال کہاں
اب نہ ہم وہ ہیں اور نہ تم وہ ہو
اب وہ پہلے سے ماہ و سال کہاں
ایک ہی خواب، ایک ہی تھا خیال
اب وہ خواب اور وہ خیال کہاں
کہیں غالبؔ تھا اور کہیں تھا میرؔ
اب وہ پہلے سے باکمال کہاں
عشق تو معتدل نہیں ہوتا
قلبِ مضطرؔ میں اعتدال کہاں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں