362۔ پھر شبِ دیجور دروازہ کھلا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ530

362۔ پھر
شبِ دیجور دروازہ کھلا

پھر
شبِ دیجور دروازہ کھلا
روشنی
کا باب اک تازہ کھلا
کون
کافر ہے، مسلماں کون ہے
ہو
گیا خلقت کو اندازہ کھلا
آگ
اور پانی گلے ملنے لگے
بیربل
سے مُلّا دوپیازہ کھلا
کھلتے
کھلتے اس بتِ عیّار کا
ہر
قدم پر جھوٹ اک تازہ کھلا
پارہ
پارہ ہو گئی دل کی کتاب
بیچ
چوراہے کے شیرازہ کھلا
بے
خبر پہلے ہی شہرِ عشق کا
رات
دن رہتا ہے دروازہ کھلا
مَیں
شہیدِ عشق ہوں، رُخ پر مرے
اشک
اور الہام کا غازہ کھلا
چھپ
کے پیتا ہوں فقیہِ شہر سے
کر
رہا ہوں ذکرِ خمیازہ کھلا
آسماں
سے بات کرنے کے لیے
کوئی
تو رہنے دو دروازہ کھلا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں