369۔ رات پھر آئی امتحاں کی طرح

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
538

369۔ رات
پھر آئی امتحاں کی طرح

رات
پھر آئی امتحاں کی طرح
بن
بُلائے بَلائے جاں کی طرح
آرزوئیں
کھڑی ہیں راہوں میں
دم
بخود گردِ کارواں کی طرح
کس
کی خوشبو قفس میں پھیل گئی
کون
گزرا ہے گلستاں کی طرح
گھورتی
ہیں روش روش آنکھیں
نقشِ
پائے گزشتگاں کی طرح
اُن
کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہے
لٹ
گیا دل بھی نقدِ جاں کی طرح
ہم
کسی کو برا نہیں کہتے
اپنے
یارانِ مہرباں کی طرح
ہم
اشاروں میں بات کرتے ہیں
ہم
نے ڈالی نئی زباں کی طرح
اشک
برسے تو اس قدر برسے
دھل
گئے دل بھی آسماں کی طرح
عمربھر
ہم رہا کےے مضطرؔ
!
اپنے
گھر میں بھی میہماں کی طرح
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں